کیلیفورنیا : آج ہم آپ کو ایسے چٹانی پتھروں کے بارے میں بتا رہے ہیں، جو بڑے عرصے تک سائنسدانوں کے ذہنوں کو چکراتے رہے، کیونکہ یہ پتھر اپنی جگہ سے خود سرکتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں
یہ بات حیران کن لیکن بلکل سچ ہے کہ دنیا کے گرم ترین مقام سمجھے جانے والے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ڈیتھ ویلی نیشنل پارک میں ایسا ہی کچھ ہوتا ہے
یہ عمل دنیا کے اس خشک ترین مقام میں ایک جھیل کی خشک تہہ میں ہوتا ہے، جسے ”ریس ٹریک پلایا“ کا نام بھی دیا گیا ہے اور وہاں آپ اس نیشنل پارک کے حرکت کرتے چٹانی پتھروں (سیلنگ اسٹونز) یا کم از کم ان کے سرکنے سے بننے والی لکیروں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں
یہ بے جان پتھر ریس ٹریک کی خشک سطح پر خودبخود سرکتے ہیں، جس سے ایک ان کے پیچھے ایک ٹریک بنتا چلا جاتا ہے
ان چٹانی پتھروں کا وزن کئی بار دو سو کلو گرام سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور ایک منٹ میں پندرہ فٹ سے زیادہ سرک سکتے ہیں، اکثر یہ اپنی جگہ سے ایک ہزار فٹ دور تک چلے جاتے ہیں
مگر سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کسی انسان نے ان پتھروں کو حرکت کرتے نہیں، دیکھا یعنی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا
البتہ انہیں 2014ع میں ٹائم لیپس فوٹوگرافی کی مدد سے ضرور حرکت کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے اور اس وقت اس حیران کن معمے کی ممکنہ وجہ بھی سامنے آئی
اپنی آنکھوں سے ان پتھروں کو سرکتے ہوئے پکڑنا اس لیے بہت مشکل ہے، کیونکہ ایسا مخصوص حالات میں ہی ہوتا ہے. ریس ٹریک پلایا پتھر ہر دو یا تین سال میں صرف ایک بار حرکت کرتے ہیں اور زیادہ تر ٹریک تین یا چار سال تک چلتے ہیں
2014ع میں دو سائنسدانوں نے بتایا تھا کہ کئی بار یہ بھاری اور بڑے پتھر برف کی پتلی مگر شفاف تہہ میں سورج والے دنوں میں سرکتے ہیں، جسے انہوں نے آئس شوو کا نام دیا
سائنسدان جیمز نورس نے اس موقع پر بتایا تھا کہ ہم یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے کہ دنیا کا وہ مقام جہاں سال بھر میں اوسطاً محض دو انچ بارش ہوتی ہے، چٹانی پتھر اس طرح سرکتے ہیں، جیسے عموماً آرکٹک کے خطے میں نظر آتا ہے
انہوں نے یہ دریافت حادثاتی طور پر کی تھی، ویسے یہ ان پتھروں کی حرکت کی ہی جانچ پڑتال کررہے تھے مگر انہوں نے ان چٹانوں کو دسمبر میں اس وقت متحرک دیکھا، جب وہ وہاں موجود اپنے ٹائم لیپس کیمروں کو چیک کرنے گئے. انہوں نے ساٹھ چٹانی پتھروں کو آہستگی سے سرکتے دیکھا
یہ چٹانیں اکثر ساکت ہی رہتی ہیں اور سرکنے پر بھی یہ عمل چند منٹ تک ہی جاری رہتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکثر افراد پہلے اس حرکت کو نوٹ ہی نہیں کر سکے
ڈیتھ ویلی نیشنل پارک کے نمائندگان کے مطابق یہ پراسرار حرکت سردیوں میں اس وقت ہوتی ہے جب یہاں بارش ہوتی ہے. بارش کے بعد ریس ٹریک پر بہت زیادہ پھسلن والی برف کی پتلی تہہ بن جاتی ہے، جبکہ تند و تیز ہواؤں سے بھاری پتھر سطح پر حرکت کرنے لگتے ہیں اور سرکنے کی وجہ سے اپنے پیچھے مٹی پر ٹریک چھوڑ جاتے ہیں. اگر اس جگہ پر مناسب حد تک بارش نہ ہو تو یہ پتھر مزید ایک سال تک اپنی جگہ جمے رہتے ہیں. چونکہ ڈیتھ ویلی بہت زیادہ خشک مقام ہے، اس لیے پتھروں کو حرکت کرتے دیکھ پانا اتنا آسان نہیں ہوتا
ویسے دسمبر سے فروری کے دوران وہاں جاکر یہ کوشش کی جاسکتی ہے، مگر اس کے لیے پہلے بارش کی پیشگوئی کو دیکھنا ضروری ہے ،اس کے باوجود یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ پتھروں کو سرکتے دیکھا جا سکے گا البتہ ان کے ٹریک ضرور نظر آجائیں گے
ناسا کی جانب سے بھی اس مقام کے معمے کے حوالے سے وضاحت ایک پکچر آف ڈے کے موقع پر کی گئی۔ اس تصویر کے ساتھ ناسا نے لکھا آخر اتنی بڑی چٹان اس عجیب مقام پر کیسے پہنچ گئی؟ ناسا کے مطابق یہ خشک جھیل کی تہہ لگ بھگ مثالی حد تک سپاٹ ہے اور وہاں چند بڑے چٹانی پتھر موجود ہے
ناسا کے بیان میں کہا گیا کہ ان پتھروں کی حرکت سحر انگیز ہے مگر اب سائنسی طور پر معمہ نہیں، پہلے خیال کیا جاتا تھا ایسا شدید بارش کے بعد مٹی کے بہنے، خشک ہونے اور ان میں دراڑوں کی وجہ سے ہوتا ہے، مگر اب معلوم ہوچکا ہے کہ ایسا سردیوں میں برف کی پتلی تہہ بننے کے نتیجے میں ہوتا ہے اور تیز ہوا اس برفانی حصے پر بھاری چٹانوں کو اس وقت متحرک کر دیتی ہیں جب سورج کی روشنی سے برف پگھل جاتی ہے. یعنی برف اور ہوا بظاہر اس معمے کو حل کرنے والے عناصر ہیں.