پاکستانی سائنسدان کی ایجاد نیچر عالمی ایوارڈ کے لیے نامزد

نیوز ڈیسک

کراچی : پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر محمد افضل کی ایک اہم اختراع/ایجاد کو ہفت روزہ سائنسی جریدے ’نیچر‘ نے گلوبل امپیکٹ ایوارڈ کے لیے نامزد (شارٹ لِسٹ) کیا ہے

ہفت روزہ نیچرگلوبل امپیکٹ ریسرچ ایوارڈ میں شامل دیگر سائنسدانوں کا تعلق امریکہ، چین، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے ہے

تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر محمد افضل کا تعلق نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ سے ہے، جہاں وہ پرنسپل سائنٹسٹ ہیں۔ ہفت روزہ نیچر نے ان کی ایجاد کو پوری دنیا کے لیے اہمیت کا حامل قرار دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ اختراع نیچر سسٹین ایبلٹی کے سرورق پر بھی نمایاں کی گئی تھی۔ ڈاکٹر محمد افضل پہلے پاکستانی ہیں، جنہیں اس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے

ڈاکٹر افضل اپنے ادارے میں ’آلودہ پانی کی نباتاتی صفائی‘ کے گروپ کے سربراہ ہیں، جو ماحولیاتی تجربہ گاہ کا ایک ذیلی حصہ بھی ہے

انہوں نے نہ صرف تیرتی ہوئی آبی چٹائیوں کا تصور پیش کیا، بلکہ اس کے ماڈل بھی بنائے ہیں، جو اب پاکستان کے کئی علاقوں میں آلودہ پانی کو صاف کر رہے ہیں۔ ان چٹائیوں کو ’فلوٹنگ ویٹ لینڈز‘ کا نام دیا گیا ہے، جنہیں چلانے کے لیے بیرونی مدد یا بجلی کی ضرورت نہیں رہتی

مقامی طور پر پاکستانی پودوں پر مشتمل سبز تیراک چٹائیوں کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ ان پر بین الاقوامی چٹائیوں کے مقابلے میں جو لاگت آئی ہے، وہ پانچ سو گنا تک کم ہے۔ اس لیے آلودہ پانی کے ذخائر کو صاف کرنے لئے یہ ایک بہترین حل پیش کرتی ہیں

کئی بین الاقوامی اعزازات کے علاوہ ڈاکٹر محمد افضل کو پاکستان اکادمی برائے سائنس سے گولڈ میڈل بھی دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیچر نے آٹھ بین الاقوامی ماہرین کی فہرست میں ان کا نام اور تصویر پہلے نمبر پر رکھی ہے

ان پیراک چٹائیوں کو فیصل آباد ایک ایسے جوہڑ میں آزمایا گیا ہے، جس میں 60 فیصد پانی گھروں اور 40 فیصد پانی ٹیکسٹائل، کیمیا اور چمڑے کی صنعتوں کا تھا۔ طرح طرح کے آلودگیوں نے تالاب کو ٹیکنالوجی کی جانچ کے لیے ایک موزوں جگہ بنادیا تھا

دوسرے برس پیراک آب گاہوں کے اثرات سامنے آنا شروع ہوئے اور پانی صاف ہونے کے تمام آثار ظاہر ہوئے، جنہیں تین درجوں میں بیان کیا جاسکتا ہے. اول طبعی کیمیائی یعنی تیل، سلفیٹ، چکنائی اور دیگر حل شدہ ٹھوس اجزا میں کمی، دوم خردحیاتیاتی یعنی انسانی فضلے کے ذرات میں کمی اور سوم کیڈمیئم، کرومیئم، اور نِکل جیسی دھاتوں میں تخفیف واقع ہوئی۔ اس ٹیکنالوجی سے کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (سی او ڈی) میں 79 فیصد، بایوکیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (بی اوڈی) میں 88 فیصد اور تمام حل شدہ ٹھوس اجسام (ٹی او ڈی) میں 65 فیصد کم ہوگئے

صاف یا آلودہ پانی میں شامل قدرتی طور پر ختم ہونے والے یعنی بایوڈگریڈیبل یا نہ ختم ہونے والے نان بایوڈگریڈیبل اجزا کی کل مقدار کو سی او ڈی سے بیان کیا جاتا ہے جبکہ بی او ڈی میں حیاتی طور پر تلف ہوجانے والے اجزا کا شمار کیا جاتا ہے۔ کوئی پانی جتنا صاف ہوگا اس میں سی او ڈی اور بی او ڈی کی مقدار اتنی ہی کم ہوگی۔ پینے یا دوسرے صاف پانی میں ان کی مقدار عموماً صفر ہوتی ہے

اگرچہ ایف ٹی ڈبلیو دنیا بھر میں دستیاب اور زیرِ استعمال ہیں لیکن پاکستانی اختراع انتہائی کم خرچ ہونے کی بنا پر بازار سے پانچ سو درجے سستی بھی ہے

گزشتہ چھ برس سے سبزے والی چٹائیوں نے مجموعی طور پر 57,947,400 مکعب میٹر آلودہ پانی صاف کیا جو 31000 سے زائد اولمپک سوئمنگ پول کے برابر ہے جبکہ چند پیسے فی مکعب میٹر کے اخراجات آئے ہیں

اپنی پائیداری کے بنا پر ایک سسٹم مزید پندرہ برس کے لیے قابلِ عمل رہ سکتا ہے جس سے لاگت میں مزید کمی واقع ہوگی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close