میں نے اسے حیرت سے دیکھا۔ یہ بات سن 2042ع کی ہے، جو میں آج سن 2051ع میں لکھ رہا ہوں۔ رچرڈ گومزے کے مرنے کے چھ گھنٹے بعد، جب اس کا جنازہ ہم لوگوں کی مشترکہ رہائش گاہ ہیون لی لیونگ سے جا چکا ہے۔
میں اور سیما ریٹائر ہونے کے بعد جب ہیون لی لیونگ پہنچے تو سب سے پہلے ہماری ملاقات رچرڈ گومزے سے ہی ہوئی تھی۔ رچرڈ کو وہاں آئے ہوئے چھ سال ہوچکے تھے. ہم رچرڈ اور اس کی بیوی ربیکا کے بہت جلد ہی دوست بن گئے تھے۔
ہیون لی لیونگ ریٹائر ہونے کے بعد رہنے کی جگہ تھی۔ فلوریڈا میں ساحل سمندر کے ساتھ تقریباً پانچ سو ایکڑ جگہ پر پھیلا ہوا زبردست خوبصورت علاقہ تھا. اس علاقے میں کہیں دور سے آتی ہوئی ندی بھی تھی، جو سمندر میں جاکر گرتی تھی۔ اسی ندی کے ساتھ ہیون لی لیونگ والوں نے ایک چھوٹی سی جھیل بھی بنا دی تھی، جہاں سورج کے طلوع اور غروب کا منظر دیدنی ہوتا تھا۔ یہاں گیارہ سو پچاس مکانات تھے، جن میں سے گیارہ سو مکان ہر وقت ہی بھرے رہتے تھے۔
کیا نہیں تھا یہاں پر ہم بوڑھوں کے لیے۔ گالف کے تین کورس، کئی بہترین چھوٹے بڑے سوئمنگ پول، مختلف مشاغل کے مرکز، جھیل اور دریا میں مچھلی کا شکار، کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا جنگل جہاں گھومنے کا اپنا مزا تھا۔ بہترین جم جہاں طرح طرح کے کسرت کرنے کے آلات تھے۔ چوبیس گھنٹے کھانے پینے کے انتظامات۔ ایسے انتظامات کہ ہر وقت ہر طرح کا کھانا مہیا ہوتا تھا یا اگر کسی خاص کھانے کا دل چاہے، تو اس کے لیے بھی خانسامے مختص تھے۔
ناشتے سے لے کر دوپہر رات کا کھانا اور مختلف اوقات میں چائے اور چائے کے لوازمات ہر وقت ہی موجود ہوتے تھے۔ میں اور سیما تو پہلے دن کا ناشتہ ہی کر کے بہت مرعوب ہو گئے تھے۔ مختلف قسم کی ڈبل روٹیاں، پنیر اور شہد کی وہ تمام قسمیں جو بڑے بڑے اسٹوروں میں موجود ہوتی ہیں اور وہ بھی اعلیٰ ترین قسم کی۔ شہد کی قسمیں تو اتنی تھیں کہ میں نے ان کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ گوشت اور مچھلی کے طرح طرح کے پکوان، عربی، ترکی، یونانی، ہندوستانی، جاپانی، چینی، یورپی، روسی، پاکستانی ہر قسم کے کھانے وافر مقدار میں بروقت ہی موجود ہوتے تھے۔ میں اتنے اچھے انتظامات دیکھ کر حیران ہو گیا تھا۔
اسی طرح سے کئی شراب خانے بھی موجود تھے۔ فرانس کی وائن سے لے کر افغانستان کے شہر ہرات میں خفیہ طریقوں سے بننے والی انتہائی اعلیٰ قسم کی وائن بھی ملتی تھی۔ سو سے زیادہ قسم کی شرابیں مختلف ملکوں سے برآمد کر کے مہیا کی جاتی تھیں۔ انواع و اقسام کے پھل، دنیا بھر سے منگائی گئیں وہ تمام چیزیں، جن کا ہم نے صرف خواب دیکھا تھا یا ان کے بارے میں سنا تھا۔
امریکا و یورپ میں ہیون لی لیونگ کی طرح کے بہت سے ادارے بنائے جاتے ہیں، جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ جا کر رہتے ہیں، تاکہ عزت و احترام کے ساتھ موت کا استقبال کریں۔ وہاں ہر قسم کی طبی سہولتیں بھی ہوتی ہیں، بیماری کا علاج بھی بہت موثر طریقے سے کیا جاتا ہے۔ یہاں کوئی بھی رہنے والا سسک سسک کر نہیں مرتا ہے، کھاتے پیتے، گھومتے گھامتے آنے والی موت کا انتظار کرتے ہیں۔
میں 19 سال کی عمر میں امریکا آ گیا تھا۔ امریکا میں یونیورسٹی میں میری ملاقات سیما سے ہوئی۔ سیما امریکا میں ہی پیدا ہوئی تھی، یہاں پر ہی پلی تھی، بڑھی تھی۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں اس کی محبت میں گرفتار ہوا اور اس نے مجھے بھی امریکن بنا دیا۔ ہماری شادی ہوئی، تین بچے ہوئے۔ ہم دونوں ہی نے پیشہ ورانہ زندگی گزاری تھی اور امریکی معیار کے مطابق اپنی تعلیم اور کام کی وجہ سے بہت اچھا کمایا تھا۔ ہم دونوں ہی ان خوش قسمت لوگوں میں تھے، جن کا شمار امریکا کے بالائی طبقے میں ہوتا ہے۔
ہم نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا، امریکیوں کی طرح ہمارا بھی یہی خیال اور فرض تھا کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی طرف سے بہترین زندگی، تعلیم اور تربیت دیں، اس لیے نہیں کہ وہ ہمارے احسان مند ہوں۔ ہم تو ان کے احسان مند تھے کہ وہ ہماری زندگی میں آئے اور جب تک ہمارے ساتھ رہے، ہر لمحے ہماری زندگیوں میں خوشیاں بکھیرتے رہے۔ امریکیوں کی طرح ہم نے بھی اپنی آمدنی کا ایک حصہ ہیون لی لیونگ قسم کے اس منصوبے میں ڈالا تھا، ہمیں پتا تھا کہ ایک دن ہم اتنے بوڑھے ہوجائیں گے کہ اپنے روزمرہ کاموں کے لیے دوسروں پر بوجھ بن جائیں گے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہم اپنے بچوں پر بوجھ بنیں، ان کی ترقی میں حائل ہوں، ان کی زندگی کی راہ میں رکاوٹ بنیں۔ ہم اپنے آپ کو کامیاب سمجھتے تھے۔
ہمارے تینوں بچے ہم دونوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ ہم بھی ان سے اور ان کے بچوں یعنی اپنے پوتوں نواسوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ ہمارے گھر میں ہر وقت رونق لگی رہتی تھی۔ ہمارے پوتے نواسے اکثر و بیشتر ہمارے گھر میں ہوتے اور جب سارا خاندان اکٹھے ہوتا، تو ہم بجا طور پر فخر و غرور سے انہیں دیکھا کرتے تھے۔
مگر بڑھاپا تو آہی جاتا ہے، جوانی سے ادھیڑ عمری پر بڑھاپا اور بڑھاپے کی مجبوریاں دستک نہیں دیتی ہیں۔ ایک وقت آیا جب ہم دونوں بہت سارے کاموں کو مناسب طریقے سے نہیں کر پا رہے تھے، کھانا پکانے سے لے کر گھر کی معمولی صفائی، یہاں تک کہ ہفتے میں دو دن گھر کا کچرا باہر رکھنے میں بھی مشکل ہونے لگی تھی۔
پھر ہم نے خاموشی سے طے شدہ منصوبے کے تحت اپنا مکان بیچا اور قبضہ دینے سے قبل اپنے بچوں کو بلا کر انہیں جو دینا تھا، وہ دیا اور بتایا کہ اب ہم لوگ ہیون لی لیونگ میں رہنے جا رہے ہیں۔ ہمارے بچوں نے ہماری بات سمجھی تھی، انہیں اندازہ تھا کہ ہماری مشکلات کا حل ہیون لی لیونگ میں ہے۔ انہیں اور ہمیں بھی پتا تھا کہ جو رقم ہر ماہ ہم اس منصوبے کو دیتے رہے ہیں، اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ہماری زندگی وہاں آسانی اور آرام سے گزرے گی، بلکہ وہاں پر موجود صحت کی بہترین ترین سہولتوں کی وجہ سے ہمارا مناسب خیال بھی رکھا جائے گا۔ میں نے سوچا تھا کہ میں پہلے کام سے ریٹائر ہوا اور اب ہیون لی لیونگ جا کر بڑھاپے کے مسائل سے نمٹتا ہوا ہمیشہ کے لیے فنا ہونے کے راستے پر چل نکلوں گا… یہی تو حقیقت تھی!
ہم لوگ اپنے اس گھر میں منتقل ہو گئے اور جلد ہی اپنے نئے ماحول اور دنیا سے روشناس ہو کر یہاں کے معمولات کا حصہ بن گئے تھے۔ سارا خاندان ہمیں وہاں چھوڑنے آیا تھا. اب جب بھی بچوں اور بچوں کے بچوں کو فرصت ملتی، وہ ہم سے ملنے آ جاتے تھے۔ یہاں ہی ہماری ملاقات رچرڈ اور اس کی بیوی سے ہوئی تھی۔ دونوں میاں بیوی بہت دلچسپ لوگ تھے۔ ساری زندگی انہوں نے ہماری ہی طرح سے محنت کر کے اور عزت کما کے گزاری تھی۔ انہوں نے بھی اپنے بچوں کو اعلیٰ ترین تعلیم دی۔ زندہ رہنے کے گر سکھائے تھے اور اب آرام اور چین کی زندگی ہیون لی لیونگ میں گزار رہے تھے۔
ہمارے بہت سارے مشاغل اور شوق ملتے جلتے تھے۔ گولف کھیلتے، مچھلی کا شکار کرتے، رچرڈ کو لکڑی کی چیزیں بنانے کا شوق تھا اور اس کی وجہ سے مجھے بھی یہ شوق ہوا۔ لکڑی کے کام کے ورکشاپ میں میں نے بھی اس کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ ہماری بیویوں کو یوگا اور رقص کرنے کے شوق کے ساتھ سلائی کڑھائی کا بھی شوق تھا، وہ دونوں ان ہی سرگرمیوں میں مصروف رہتی تھیں۔ ہیون لی لیونگ میں بہت سارے مشغلوں کا انتظام تھا۔ پتنگ اڑانے کے کلب سے لے کر سمندری کھیل، بلیئرڈ کلب سے لے کر چاردیواری کے اندر اور باہر کے کھیلوں کے مناسب انتظام تھے۔ کچھ ہندوستانی پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں نے مل کر کرکٹ کھیلنے کا بھی انتظام کرا لیا تھا اور کئی لوگ تو گھنٹوں تاش اور شطرنج کھیلتے رہتے تھے۔
سات سال بہت آرام اور اطمینان سے گزرے.. پھر ایک دن جب ہم دوپہر کو ساتھ ہی کھانا کھا رہے تھے، کہ ڈیوڈ کی بیوی کو سینے میں شدید درد اٹھا اور وہ دل کے دورے کو سہار نہیں سکی۔ گو کہ ایمبولینس پانچ منٹ میں پہنچ گئی تھی، مگر ایمبولینس میں منتقل کرنے کے دوران ہی اس کا انتقال ہو گیا۔
ڈیوڈ کی زندگی بہت اداس ہو گئی، انچاس سالوں کا ساتھ ٹوٹ گیا تھا۔ ڈیوڈ نے اداسی کے باوجود زندگی کو بوجھ نہیں بنایا، کچھ تبدیلیوں کے ساتھ زندگی چلتی رہی تھی۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ بہت سی سرگرمیوں میں اپنے آپ کو مصروف رکھتے تھے، ایک دوسرے سے گپ مارتے، وہاں رہنے والے دوسروں لوگوں سے ہماری دوستی تھی، اکثر سینما ہالوں میں جا کر مختلف فلمیں بھی دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے.. زندگی اچھی گزر رہی تھی۔
ایک دن شام کے پچھلے پہر جب جھیل کے کنارے خوبصورت موسم میں ہم سورج کے ڈوبنے کا نظارہ کر رہے تھے، تو باتوں باتوں میں ڈیوڈ نے اس بات کا اقرار کیا کہ اس نے سات سو انسانوں کا قتل کیا تھا۔
میں حیران ہو گیا… مجھے بالکل یقین نہیں آیا تھا، میں اس کے چہرے کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا، مگر اس کے چہرے کی سنجیدگی بتا رہی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ اتنے سالوں میں مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ایک سچا انسان ہے، ایک اعلیٰ عہدے پر کام کر چکا ہے، وہ جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔
میرے کچھ کہنے سے پہلے اس نے کہنا شروع کر دیا۔ یہ میری زندگی کا سب سے اچھا کام تھا، جو میں نے تنِ تنہا انجام دیا اور کسی کو بھی یہ نہیں پتا چلا کہ یہ میں نے کیا ہے۔ سات سو مردوں اور عورتوں کا قتل… مجھے ان کے مرنے کا افسوس ہے، مگر میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ تم کو پتا ہے نا، کہ میں ناسا میں ایک بڑے عہدے پر کام کرتا تھا اور بہت سے معاملات کی ذمے داری مجھ پر تھی۔ حکومتِ امریکا نے ناسا کی فراہم کی ہوئی معلومات کی بنا پر ایک بہت ہی خفیہ منصوبہ بنایا تھا، جس میں میرا کلیدی کام تھا۔
ناسا امریکا کا وہ ادارہ ہے، جو آسمانوں سے بہت اوپر خلا میں چاند، سورج اور ستاروں کے بارے میں تحقیقات کرتا ہے۔ ناسا نے ہی انسانوں کو چاند اور مریخ پہ پہنچایا ہے اور ہمارے شمسی نظام سے بھی باہر اپنے خلائی مشن پہنچا چکا ہے، آہستہ ہی صحیح لیکن کائنات کے راز کھلتے چلے جا رہے ہیں۔
ڈیوڈ نے بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا تھا۔
اس وقت امریکا میں ایک ایسے نسل پرست سفید صدر کی حکومت آ گئی تھی، جس کی ٹیم کے سارے ممبران سفید نسل کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے۔ صدر کو جانے والی ہفتہ واری رپورٹ سے انہیں پتا لگا تھا کہ ہر ایک سو ستائیس سال پر زمین کے قریب سے گزرنے والا سیارہ تین سال گیارہ دن پر زمین کے قریب ترین ہوگا۔ اس سیارے کو ناسا نے جم 127 کا نام دیا ہوا تھا۔ یہ زمین سے تھوڑا سا بڑا بالکل زمین جیسا تھا۔ وہاں ہوا تھی، دریا، ندی، نالے، چشمے، پہاڑ، جھرنے، جنگل، وادی، صحرا، سب کچھ اسی طرح سے تھا، جیسے ہماری زمین پر ہے۔
وہاں پر مختلف قسم کے جانور چرند پرند اور سمندروں میں ہزارہا قسم کی مچھلیاں تھیں اور دیگر خوبصورت آبی جانور تھے۔ ان سب چیزوں کے ساتھ انسانوں سے ملتی جلتی آبادیاں بھی تھیں، جو اپنے ارتقاء کے بہت ابتدائی مرحلوں میں تھیں۔ وہاں کے رہنے والے لوگوں میں ذہانت تھی، مگر انسانوں کی طرح کی ذہانت نہیں تھی۔ وہ لوگ لڑتے نہیں تھے۔ سیارے پر رہنے والے انسانوں جیسے لوگ، ہر طرح کے چرند پرند، نباتات، سمندر، دریا، پہاڑ، پانی کی عزت کرتے تھے۔ وہ فطرت سے لڑتے نہیں تھے، بلکہ فطرت کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے۔ وہ درختوں، پہاڑوں، دریاؤں، سمندروں، جانوروں، پرندوں کو اپنا رشتے دار سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں ہی ناسا نے کچھ اس قسم کے آلات ایجاد کر لیے تھے کہ ہم اس سیارے پر رہنے والی زندگیوں کا مستقل مشاہدہ کرتے رہتے تھے۔
ہمارے بھیجے ہوئے کیمرے وہاں کئی جگہوں پر موجود تھے۔ وہاں کے جنگلوں میں زمین سے کہیں زیادہ قسم کے جانور تھے اور ان کے جنگل برباد نہیں کیے گئے تھے، بلکہ فطرتی انداز میں زندہ تھے۔ ان کے سمندروں اور اس کی تہہ میں ہمارے سمندروں سے زیادہ پراسراریت تھی۔ وہاں کے پہاڑوں کی خوبصورتی کا ہماری زمین کے پہاڑوں سے مقابلہ ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مجھے خاص طور پر جم 127 سے خصوصی دلچسپی تھی، میں اکثر اپنے کمپیوٹر پر جم 127 پہ سیاحی کرتا رہتا تھا۔ ہمارے جیسے لوگوں کا ایک کلب بن گیا تھا اور ہم لوگ مہینے میں دو دفعہ ورچوئل اجلاس بلاتے اور جم 127 کے بارے میں بات کرتے اور نئی نئی دریافتوں کی تصویر لے کر اور فلمیں بنا کر ان کے بارے میں ایک دوسرے سے گفتگو کرتے تھے، یہ ایک دلچسپ مشغلہ تھا۔ یہ صرف حسرت ہی تھی کہ ہم کبھی وہاں جاسکیں گے۔
مجھے خبر ملی تھی کہ صدر صاحب کی ٹیم نے اس سیارے کے سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی ہے، جو ایک منصوبہ بندی کر رہی ہے، جس میں ناسا کے کچھ مخصوص سائنس دانوں کو آنے کی ہدایت کی گئی، جس پر عمل کیا گیا تھا اور میں بھی ان اجلاسوں میں شرکت کر سکا تھا۔
منصوبہ زبردست تھا.. جم 127 کے زمین کے قریب ترین آنے کے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ایسے خلائی جہاز کو بنانا تھا، جس میں سینکڑوں کی تعداد میں انسانوں کو جدید ترین آلات کے ساتھ جم 127 پر جانا تھا اور انسانوں کی ایک نئی دنیا بسانی تھی۔ یہ ایک زبردست منصوبہ تھا۔ زمین جیسے سیارے پر انسانوں کو آباد کرنے کے لیے ایک ابتدائی قافلہ جا رہا تھا. یہ ایسا ہی تھا جیسے امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں نئی دنیا بنائی گئی تھی۔ ناسا کے پاس اس قسم کی صلاحیتیں موجود تھیں کہ اس قسم کا خلائی جہاز بنایا جائے اور انسانوں کو اس سیارے پر پہنچایا جائے۔ بڑی تیزی سے کام شروع کر دیا گیا اور زمین سے پرواز کا دن تاریخ اور وقت بھی مقرر کر دیا گیا تھا۔
کئی سو افراد کا چناؤ وائٹ ہاؤس کی ایک خاص کمیٹی ناسا کے سفارشات کے مطابق کر رہی تھی۔ یہ مرد اور عورت تین مہینے اور سترہ دن کا خلائی سفر کرنے کے بعد جم 127 پر پہنچتے اور اس سیارے پر انسانوں کے لیے ابتدائی بستیاں تعمیر کرنے کا آغاز کرتے رہے تھے۔ یہ سارے لوگ انتہائی قابل، اپنے فن کے ماہر اور جدید ترین مشینوں سے لیس تھے۔ ناسا میں بھی جن محدود لوگوں کو اس منصوبے کے بارے میں علم تھا وہ سب اپنے طور پر خواب دیکھ رہے تھے۔
میں بڑی توجہ سے ڈیوڈ کی باتیں سن رہا تھا، مجھے بھی سائنس اور کائنات سے بڑی دلچسپی تھی۔ میرا خیال تھا کہ انسان ایک دن ضرور کسی اور دنیا کو دریافت کر لے گا، جہاں زندگی موجود ہوگی۔ لیکن مجھے کبھی بھی پتا نہیں چلا تھا کہ ناسا اس قسم کے کسی مہم کی منصوبہ بندی کرچکی تھی۔ ڈیوڈ کی دوستی کی وجہ سے مجھے ناسا کے بہت سارے کامیاب اور ناکام منصوبوں کا پتا چلا تھا اور ان کی تفصیلات سے آگہی ہوئی تھی لیکن یہ نئی کہانی میرے لیے انتہائی سنسنی خیز ثابت ہو رہی تھی، میری ریڑھ کی ہڈی میں ہونے والی سنسناہٹ نے مجھے بے چین کر دیا تھا۔ فوراً ہی میرے ذہن میں سوالوں نے انگڑائی لی تھی کہ آخر اس منصوبے کو اتنا خفیہ کیوں رکھا گیا تھا۔
پھر ایک عجیب بات ہوئی.. ڈیوڈ نے بڑے گمبھیر لہجے میں کہا تھا مجھے اتفاق سے وہائٹ ہاؤس کی ایک دستاویز مل گئی، جس کے پڑھنے کے بعد میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، میں نے ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ مجھے پتا لگا کہ جم 127 پر جانے والی ٹیم میں انتہائی ماہر پیشہ ور ایسے لوگ تھے، جنہیں ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ جم 127 پر رہنے والے تمام انسان نما مخلوق کا خاتمہ کر دیں اور یقینی بنائیں گے کہ سوچنے والی اس مخلوق کا کوئی فرد مرد عورت اور بچہ نہیں بچے۔
دستاویز میں لکھا گیا تھا کہ امریکی صدارتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ زمین کے تجربے سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ کسی بھی کم عقل نسل کو اگر سمجھتے بوجھتے آزادی دی گئی ہے، تو انہوں نے مستقل مسائل ہی پیدا کیے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا میں سیاہ فام لوگ اور اصل امریکی لوگوں کی وجہ سے مسلسل مسائل چل رہے ہیں۔ امریکا میں ریڈ انڈین لوگوں کو مکمل طور پر مار دینا چاہیے تھا اور احسان فراموش سیاہ فام لوگوں کو بھی امریکی زمین پر رہنے نہیں دیا جانا چاہیے۔
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ایبرجینل لوگ وہاں کے سفید فام لوگوں کے لیے مسئلہ ہی بن گئے تھے۔ سفید فام لوگوں نے اپنی محنت سے ان گلیوں کو جنت بنا دیا تھا اور اب ایبرجینل لوگ اپنا حق اور نہ جانے کیا کیا باتیں کرنے لگے تھے۔ آئندہ جب سفید فام انسان جم 127 پر پہنچیں گے تو وہاں کی کم عقل انسان نما نسل بہت سارے مسائل پیدا کرے گی۔ مستقبل میں زمینی انسانوں کی بقاء کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس نسل کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے۔ زمین پر رہنے والوں کی تاریخ کا عجیب و غریب نتیجہ نکالا گیا تھا۔
میں سوچتا رہ گیا تھا۔ اب مجھے سمجھ میں آیا تھا کہ امریکی صدر نے اس مشن کو مکمل طور پر خفیہ کیوں رکھا تھا۔ مجھے نظر آ رہا تھا کہ اس خلائی جہاز کے وہاں پہنچنے کے بعد وہاں پر رہنے والوں کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔
انسان کی تاریخ کتنی بھیانک ہے.. جب سے دنیا وجود میں آئی ہے جنگ و جدل قتل عام کا سلسلہ جاری ہے، فراعین مصر کی جنگ، یورپ میں انسانوں کا قتل عام، چنگیز و ہلاکو خان کی ظلم و بربریت، ایرانی، ترکی اور عربی بادشاہوں کے لائے ہوئے عذاب کتنی بڑی بڑی جنگوں کی تباہ کاری، ایٹم بم جیسے ہتھیار.. انسان نے کیا نہیں کیا ہے اور اب وہ یہی سب کچھ ایک ایسے سیارے پر کرنے جا رہا تھا، جہاں کے لوگوں کو پتا ہی نہیں تھا کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔
میں تو ایک طرح سے جم 127 کا شہری تھا، وہاں کے لوگ تو بڑے معصوم تھے، بڑے سیدھے سادھے.. سیارے پر موجود درختوں، دریاؤں، سمندروں، پہاڑوں، جنگلوں سے محبت کرنے والے.. وہ وہاں کے جانوروں کے ساتھ ایسے رہتے تھے، جیسے وہ ان کے گھر کے افراد ہیں۔ جم 127 پر بلی، کتا، گھوڑے جیسے بہت سارے پالتو جانور تھے، ہاتھی سے بھی بڑے ایسے جانور جن کے دانت ہاتھی دانت سے زیادہ بہتر تھے۔ ہمارے زمین کے لوگ اس مخلوق کا خاتمہ کر دیں گے، جس نے ابھی تک وہ تہذیب و تمدن نہیں سیکھا ہے، جس میں اپنے جیسے لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے، جہاں مذہب، رنگ، نسل کے نام پر خون بہانا جائز ہے، جہاں ہزارہا لوگوں کا خاتمہ مہلک جراثیم کے ذریعے کیا جاتا رہا ہے۔ انہیں تابکاری کا نشانہ بنا کر ختم کیا گیا ہے۔ ایسی نسلیں پیدا کی گئی ہیں، جن میں تابکاری کے اثرات سے اعضاء ہی نہیں ہیں۔ انسانوں کی تاریخ بڑی بھیانک ہے۔
میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا، اس کے چہرے پر شدید اداسی تھی۔
پھر میں نے وہی فیصلہ کیا، جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔ خلائی جہاز کی کامیاب پرواز کے شروع ہونے سے پہلے میں نے سفر کی رہنمائی کرنے والے کمپیوٹر پروگرام میں خاموشی کے ساتھ انتہائی رازداری سے تبدیلی کردی، جس کا کسی کو نہیں پتا چلا۔ پھر یہی ہوا تھا کہ جب خلائی جہاز جم 127 سے تقریباً دس دن کے فاصلے پر تھا، تو خلائی جہاز نے تبدیل شدہ پروگرام کے مطابق اپنا رخ بدل لیا تھا۔ زمین پر امریکی صدر، ان کی ٹیم اور ناسا کے سائنس دان یہ سمجھ ہی نہیں سکے تھے، کہ یہ کیسے ہوا، ہمارا خلائی جہاز بڑی تیزی سے ہمارے شمسی نظام سے آگے بہت آگے کی طرف چلا جا رہا تھا۔
تو وہ سارے لوگ مر گئے؟ میں نے سوال کیا تھا۔
وہ تھوڑی دیر خاموش رہا پھر آہستہ سے بولا تھا۔
یقیناً… میرے حساب سے چھ مہینے ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ سب لوگ خلائی جہاز میں آکسیجن کے خاتمے کے بعد مر چکے۔
اب وہ خلائی جہاز کہاں ہے؟ میں نے سوال کیا تھا۔
دور، بہت دور… شاید وہ ہماری کہکشاں سے بھی آگے کہیں نکل گیا ہو گا، سات سو سے زائد لاشوں کے ساتھ مسلسل سفر کرتا ہوا کہکشاؤں کے درمیان انسانی عظمتوں کا ترانہ بجاتے ہوئے۔ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا!
ان کے چہرے کی کڑوی مسکراہٹ میں بھولتا نہیں ہوں.
(بشکریہ ہم سب)