گدھا اور تمغۂ خدمت (ترکی ادب سے منتخب افسانہ)

عزیز نَیسِن

نوٹ: یہ عزیز نیسن کی ایک ایسی کہانی ہے، جو کہیں بھی اور کبھی بھی شایع ہو، اس کے ساتھ ایک نوٹ لکھنے کی ضرورت ضرور بہ ضرور محسوس ہوتی ہے.. وہ یہ کہ ”ملکی حالات و واقعات سے اس فرضی کہانی کے کرداروں اور واقعات سے مماثلت محض اتفاق ہوگی!“ لیکن ساتھ ہی نوٹ لکھنے والا دل ہی دل میں یہ بھی سوچتا ہے، کہ کیا یہ واقعی ایک فرضی کہانی ہے!؟

ایک دفعہ کا ذکر ہے، کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ ملک بڑا خوش حال تھا۔ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آزادی کے پودے کی داغ بیل دنیا میں سب سے پہلے اسی ملک میں پڑی ہو اور جمہوریت کا سورج یہیں طلوع ہوا ہو۔

وقت گزرتا گیا… پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ نامعلوم کیوں، پورے ملک میں سخت قحط پڑ گیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جن لوگوں کے آگے پیچھے ہر وقت کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی رہا کرتی تھی اور جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوا کرتی تھیں۔ل، وہ بھی خشک روٹی کے ٹکڑوں تک کو ترسنے لگے.

جب بادشاہ نے دیکھا کہ قحط سے لوگوں کی کمر ٹوٹی جا رہی ہے، تو اسے خوف ہوا کہ کہیں ملک میں بغاوت نہ پھوٹ پڑے۔ سوچ سوچ کر اسے اس خطرے سے بچنے کی ایک انوکھی راہ سُجھائی دی۔ اس نے ملک بھر میں شہر شہر، گلی گلی ڈھنڈورچی روانہ کروائے اور بذریعہ منادی مندرجہ ذیل شاہی فرمان رعایا تک پہنچا دیا:
”میرے عزیز ہم وطنو! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی.. مابدولت نے اپنی رعایا کی عظیم خدمات کے عوض تمام مستحق افراد کو تمغۂ خدمت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا جس کسی نے آج تک ملک اور عوام کی کوئی خدمت کی ہو، اسے چاہیے کہ فوراً شاہی محل میں حاضر ہو جائے۔ مابدولت اسے تمغۂ خدمت سے نوازیں گے۔“

منادی کا سننا تھا، کہ ملک کے طول و عرض میں ہر شخص کے سر میں تمغہ حاصل کرنے کی ایسی دھن سمائی، کہ کسی کو بھوک، پیاس، قحط بیماری یا کمر توڑ گرانی کا احساس تک باقی نہ رہا۔ ادھر بادشاہ نے قومی خدمات کی نوعیت کے مطابق چھوٹے بڑے، قسم قسم کے تمغے تیار کروائے۔ تمغۂ خدمت درجہ اول خالص سونے کا بنوایا گیا۔ درجہ دوم چاندی کا، تیسرے درجے پر رولڈ گولڈ، پھر پیتل، تانبا، لوہا، ٹین وغیرہ وغیرہ… شاہی دربار میں تمغہ حاصل کرنے والے امیدواروں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر شخص کو اس کی خدمات کے مطابق کوئی نہ کوئی تمغہ عطا کردیا جاتا۔ تمغے اتنی فراخ دلی سے عطا کیے گئے، کہ تھوڑے ہی عرصے بعد ملک میں مزید تمغے بنانے کے لیے نہ سونا بچا، نہ چاندی اور نہ کوئی دھات۔ مجبوراً لکڑی، چمڑے اور اسی قسم کی دوسری اشیاء تمغہ بنانے میں استعمال کرنا پڑیں۔
ایک سے زیادہ تمغے حاصل کرنےو الوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوگئی۔ جدھر دیکھو، مشکیزوں کی طرح پھولے ہوئے سینوں پر لٹکتے تمغے دکھائی دینے لگے.

ایک گائے نے جب ہر انسان کی چھاتی پر چمکتے ٹنٹناتے تمغے دیکھے اور اسے پتہ چلا کہ بادشاہ سلامت ہر آئے گئے کو تمغوں سے نوازتے رہتے ہیں، تو اسے بھی قسمت آزمائی کا شوق چرایا۔ بھوک سے بیچاری کی پسلیاں ابھری ہوئی تھیں، جسم کا گوشت لٹک چکا تھا، جس کی وجہ سے ایک ایک ہڈی گنی جا سکتی تھی۔ اس کے باوجود گائے بھاگی اور سیدھی شاہی محل جا پہنچی۔ دربانوں نے راستہ روکا، تو بولی:
”بادشاہ سلامت کو اطلاع دی جائے کہ ان کی رعایا میں سے ایک گائے شرف ملاقات کے لیے حاضر ہوئی ہے.“
دربان نے گائے کو ٹرخانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی مجبوراً بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ بادشاہ کے حکم پر گائے کو دربار میں پیش کیا گیا..
بادشاہ کی خدمت میں پہنچ کر گائے نے عرض کی”بادشاہ سلامت، میں نے سنا ہے آپ رعایا کو تمغے عنایت فرما رہے ہیں، چنانچہ میں بھی اپنا حق لینے کی خاطر آپ کے دربار میں حاضر ہوئی ہوں“

”تم جیسے حیوان کو شاہی تمغوں کی توہین کی جرات کیونکر ہوئی…؟ آخر حیوان اس ملک کی کون سی خدمات سرانجام دیتے ہیں، جن کے عوض انہیں تمغے دیے جائیں…؟“ بادشاہ نے غصے سے چلا کر کہا

گائے نے جواب دیا ”بادشاہ سلامت، اگر آپ کی یہ ناچیز خادمہ تمغے کی حقدار نہیں، تو پھر بھلا اور کون حقدار ہوسکتا ہے! میں آپ کی اور آپ کے عوام کی ہرممکن خدمت کرتی ہوں.. انسان میرا دودھ پیتا ہے، میرا گوشت کھاتا ہے، میری کھال استعمال میں لاتا ہے، یہاں تک کہ میرا گوبر بھی نہیں چھوڑتا۔ آپ خود ہی انصاف کیجیے.. ایک تمغہ حاصل کرنے کے لیے اس سے زیادہ اور کیسی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے…؟“

گائے کی دلیل سن کر بادشاہ خوش ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ گائے کو فوراً تمغہ خدمت درجہ دوئم عطا کردیا جائے!

گائے گلے میں تمغہ لٹکائے بڑے فخر سے مٹکتی مٹکتی واپس لوٹ رہی تھی، کہ راستے میں اسے ایک خچر ملا.
”گائے جی سلام!“

”سلام خچر بھیا۔“

”باجی، کیا بات ہے، آج بڑی خوش نظر آرہی ہو.. کہاں سے آ رہی ہو.. اور ہاں، یہ گردن میں کیا لٹکا رکھا ہے…؟“

گائے نے خچر کو سارا ماجرا سنایا. خچر کو بھی جوش آیا، فوراً سرپٹ بھاگا اور جا کر شاہی محل کے گیٹ پر دم لیا۔
دربانوں سے بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی، مگر کسی نے ایک نہ سنی۔ خچر اپنی موروثی ضد پر اڑا رہا۔ پھر ایک دو دربانوں پر دولَتیاں جھاڑیں، ایک دولَتی شاہی محل کے گیٹ پر ماری۔ آخر بادشاہ سلامت کو اطلاع دی گئی کہ ایک گستاخ مہمان اندر آنے کے لیے بضد ہے.

بادشاہ نے حکم دیا ”خچر کو پیش کیا جائے، آخر وہ بھی تو ہماری رعایا ہی میں شمار ہوتا ہے۔“

خچر نے اندر آکر بادشاہ کو فرشی سلام کیا اور تمغے کے حصول کے لیے عرض داشت پیش کی۔

بادشاہ نے پوچھا ”اے خچر، تمہاری کون سی ایسی خدمات ہیں، جن کے بدلے تم اپنے آپ کو تمغےکا حقدار سمجھ کر مابدولت کے دربار میں آئے ہو…؟“

خچر نے عرض کی ”مجھے یہ جان کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ آپ کو اس ناچیز کی خدمات کا علم ہی نہیں.. بھلا یہ تو بتائیے کہ جنگ کے دوران آپ کی توپیں، گولہ بارود اور دوسری جنگی ضروریات اپنی کمر پر اُٹھا کر کون دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا، پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچاتا ہے؟ آپ کے سپاہیوں کا راشن کون ڈھوتا ہے…؟ امن کے زمانے میں بھی آپ کے بال بچوں کو اور آپ کی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں میرا کچھ کم حصہ نہیں ہے.. اگر اس ملک میں میری برادری کے خچر نہ ہوتے تو سلطنت کے بےشمار کام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رکے رہتے۔“

بادشاہ نے محسوس کیا کہ واقعی خچر حق بجانب ہے۔ چنانچہ خچر کو درجہ اول کا تمغہ عطا کرنے کا حکم صادر ہوگیا.

خچر تمغہ لے کر خوشی خوشی محل سے واپس لوٹ رہا تھا کہ اسے راستے میں گدھا ملا۔ گدھے نے خچر سے کہا ”سلام پیارے بھتیجے۔“

”سلام چچا جان“ خچر نے جواب دیا۔

”کہو! اتنے خوش خوش کہاں سے آرہے ہو….؟“

خچر نے سارا واقعہ سنایا، تو گدھا رینکا۔
”ذرا ٹھہرو، میں بھی جاکر بادشاہ سلامت سے اپنا حق طلب کرتا ہوں۔“

یہ کہا اور بھاگم بھاگ سیدھا شاہی محل کے گیٹ پر جا پہنچا۔ محافظوں نے ڈرایا دھمکایا، دربانوں نے منت سماجت کرکے گدھے کو واپس لوٹ جانے کی ترغیب دی۔ لیکن گدھا کہاں سنتا تھا۔ وہ لگاتار بادشاہِ سلامت سے ملاقات کی رٹ لگاتا رہا.. آخرکار بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ گدھے کو حاضری کی اجازت مل گئی.

ادہر انسانوں اور حیوانوں کی درخواستیں سن سن کر بادشاہ تنگ آچکا تھا اور پہلے تپا بیٹھا تھا۔ گدھے کو دیکھتے ہی جھلا کر بولا:
”ابے گدھے کہیں کے! تمہیں کیسے جرات ہوئی کہ اپنا گدھا پن بھول کر شاہی محل میں آ پہنچے ہو اور پھر طُرّہ یہ، کہ مابدولت سے ملاقات کرنے پر مصر ہو!! میری رعایا کے حیوانوں میں گائے اپنے دودھ، گوشت اور کھال سے قوم اور وطن کی خدمت کرتی ہے. خچر امن اور جنگ کے دوران بوجھ اٹھا کر قومی خدمات سرانجام دیتا ہے.. لیکن تم گدھوں کا سوائے ڈھینچوں، ڈھینچوں کر کے رعایا کے آرام میں خلل اندازی کے اور کیا کام کیا ہے…؟
تمہیں کس خوشی میں تمغہ دے دوں….؟“

گدھے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور بولا:
”بادشاہ سلامت! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت تو گدھے ہی کرتے ہیں.. ذرا سوچیے، اگر مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں گدھے آپ کی سلطنت میں موجود نہ ہوتے، تو آپ اتنی مدت شاہی تخت پر کیوں کر براجمان رہ سکتے تھے؟ اپنی اس ناچیز مخلوق کو دعا دیجیے، جنہیں لوگ گدھا سمجھتے ہیں اور جن کی بدولت آپ کی کرسی محفوظ چلی آرہی ہے۔“

گدھے کی بات سن کر بادشاہ سوچ میں پڑ گیا.. پھر اس نے اپنے تمام درباریوں اور مشیروں پر باری باری نظر ڈالی اور دل ہی دل میں کہا
”واقعی گدھا حق بجانب ہے۔“
بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ گدھے سے یوں مخاطب ہوا:
”اے میرے وفادار گدھے! تو بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ تیری اس اعلیٰ خدمت کا صلہ ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی مناسب تمغہ نہیں ہے، البتہ ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارے لیے تاحیات سرکاری توشہ خانے سے ہر روز ایک بوری گھاس کا وظیفہ لگا دیا جائے۔ جب تک زندہ ہو سرکاری گھاس کھاتے جاؤ اور رات دن ہماری سلطنت کی سلامتی کی دعائیں مانگا کرو۔“


ترکی  زبان کے  ادیب، شاعر ، طنز نگار اور مزاح نگار
عزیز نیسن   (1915ع تا 1995ع)

ترکی کے دورِ جدید کے مشہور ادیب، شاعر، ڈراما نگار، مزاح  و طنز نگار  اور 100 سے زائد کتابوں کے مصنف   عزیز نیسن (Aziz Nesin) کا اصل نام محمد نصرت تھا۔ عزیز نیسن 20 دسمبر 1915ع کو  سلطنت عثمانیہ کے جزائر پرنس کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں استنبول آگئے ۔ اُن کی ایک سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آئیں۔ عزیز نیسن نے متعدد طنزیہ رسائل کی ادارت کی۔ طنز و مزاح پر اُنہیں متعدد عالمی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ اُن کی طنز و مزاح سے بھرپور کہانیاں دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ انہیں ترکی، اطالیہ، بلغاریہ اور سابق سوویت یونین میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔
عزیز  نیسن  نے 1972ع میں ”نیسن فاؤنڈیشن“ قائم کی۔ فاؤنڈیشن کا مقصد ہر سال چار بچوں کو فاؤنڈیشن کے قائم کردہ گھر میں لاکر ان کی تمام ضروریات کی کفالت کرنا ہے۔ ان ضرورریات میں روٹی، کپڑے اور مکان کے ساتھ ساتھ ابتدائی اسکول سے اعلیٰ تعلیمی اداروں تک بچوں کی تعلیم و تربیت بھی شامل ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے عزیز نیسن نے تمام تخلیقات  کے تمام حقوق دائمی طور پر فاؤنڈیشن کے نام کر دیے۔
عزیز نیسن کی وفات حرکتِ قلب بند ہونے سے 6 جولائی 1995ء کو چشمے، ترکی میں ہوئی۔


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close