اسلام آباد : یہ تو سنا تھا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، لیکن ایسا بھی کیا کہ کبھی جہاز کا ٹکٹ ملنے میں دیر ہو جائے اور ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ اب اپنی ہی ایئرلائن بنانی ہے
لیکن ہما بتول نے کچھ ایسا ہی کیا اور آج وہ پاکستان میں کسی بھی ایئرلائن کی چیئرپرسن بننے والی پہلی خاتون ہیں
اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے حال ہی میں الویر ایئرویز نامی اس نئی ایئرلائن کو لائسنس جاری کیا ہے جو ہما بتول کے مطابق ایک سیاحتی ایئرلائن ہوگی
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے اُس دن کے بارے میں بتایا جب اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ اب اگلا کام ایئرلائن قائم کرنا ہے۔
ہما کے مطابق ’میں اپنے شوہر کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد آ رہی تھی مگر ہمیں ٹکٹ خریدنے میں خاصی مشکل درپیش تھی۔ بالآخر ٹکٹ مل گیا۔ جہاز میں بیٹھے تو میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہمیں ایک ایئرلائن بنانی چاہیے۔ بس پھر دو دن بعد ہی ہم نے منصوبہ بندی شروع کر دی۔‘
ہما بتول کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور وہ پہلے ہی ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں سو بس آئیڈیا آنے کی دیر تھی اور کام شروع!
ہنا بتول کہتی ہیں کہ آج دنیا بہت تیز ہے اور کسی کے پاس ضائع کرنے کو وقت ہی نہیں، نہ ہی یہ وقت ہے کہ آپ معاشرے اور لوگوں کی باتوں کو سوچتے رہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے بہت تیز دوڑ لگائی ہے۔ اتنی تیز کہ اب اڑان بھرنے کی تیاری ہے
رپورٹ کے مطابق ہما بتول نے اپنے کریئر کا آغاز درس و تدریس سے کیا۔ ان کی شادی پنجاب کے ایک مشہور زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میرے شوہر کو میری مدد کی ضرورت ہے۔ وہ ادویات کی درآمد کا کام کر رہے تھے مگر بنیادی طور پر تو وہ زمیندار تھے۔ میں نے سوچا مجھے اپنا ہنر ضائع کرنے کے بجائے اپنے شوہر کی مدد کرنی چاہیے۔ ہم نے منصوبہ بنایا کہ ہم ادویات تیار کرنے کی فیکٹری قائم کرتے ہیں۔ میرے شوہر نے اس معاملے پر میرا ساتھ دیا
ہما بتول نے مزید بتایا کہ اس فیصلے پر بھی ہمیں ابتدا میں اپنے علاقے اور خاندان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ہم نے ادویات کی فیکٹری کا فیصلہ کیا تو سب یہی کہتے تھے کہ یہ ممکن نہیں ہو گا، اور دو لوگ کیسے یہ کام کریں گے۔ مگر ہم نے ثابت کیا کہ سب کچھ ممکن ہے۔ ہم نے علاقے کے لوگوں کو سب سے پہلے روزگار دیا۔ اُنھیں سہولیات فراہم کیں۔ فیکٹری بننے سے وہاں بجلی آئی اور سڑکیں بنیں اور کام سے ان کی زندگی کا معیار بہتر ہوا
وہ کہتی ہیں کہ ہر نیا کاروبار شروع کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ صبح سویرے سخت سردی اور دھند میں فیکٹری جاتی تھی، فیکٹری کے تمام مالی معاملات اور ٹیم منیجمنٹ میری ذمہ داری تھی۔ میں مزدوروں کی خود نگرانی کرتی، یعنی میں نے اتنے گراس روٹ لیول سے کام شروع کیا ہے۔ ہماری محنت کا صلہ یہ ملا کہ آج ہماری ادویات پاکستان میں صف اول کی ادویات میں شمار ہوتی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری ایئرلائن بھی مسافروں کو بہترین سہولیات فراہم کرے گی
ہما بتول کے مطابق اس وقت جہازوں کی خریداری سے متعلق معاملات بھی پایہء تکمیل کو پہنچ گئے ہیں۔ آئندہ برس ایئرلائن پروازوں کا آغاز کر دے گی۔
واضح رہے کہ یہ پاکستان کی پہلی سیاحتی ایئرلائن ہے۔ ہما بتول کے مطابق یہ ٹوارزم پروموشن اینڈ ریجنل انٹیگریشن یعنی ٹی پی اے آر آئی لائسنس ہے جو بنیادی طور پر سیاحت کے فروغ کے لیے ہے
بی بی سی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ پاکستان کی پہلی بجٹ ایئرلائن بھی ہوگی۔ بجٹ ایئرلائن مسافروں کو صرف بنیادی سہولت فراہم کرتی ہے جس میں وہ صرف ایک مقام سے دوسرے تک سفر کرتے ہیں۔ جہاز میں کسی بھی قسم کی دیگر سہولیات کے لیے اُنھیں قیمت ادا کرنی پڑتی ہے
اس حوالے سے ہما بتول کہتی ہیں کہ ہم اس کو نوجوانوں کی ایئرلائن بھی کہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوان آج سفر کرنا چاہتے ہیں سو ہم ان کو نسبتاً کم قیمت میں یہ سہولت فراہم کرنے پر غور کر رہے ہیں
بی بی سی نے جب ہما بتول سے پوچھا کہ ایک خاتون ہونے کی وجہ سے کبھی اُنھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو اس کا جواب اُنھوں نے ملا جلا دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ دفتر میں ہوں یا میٹنگز میں ہوں تو سب اُنھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ’کاروبار میں مقابلہ تو رہتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ میں سمجھتی ہوں کہ مجھے عورت ہونے کی وجہ سے عزت ملی ہے۔‘
اس سوال پر کہ ایک ایئرلائن قائم کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ایئرلائن کئی بلاکس سے مل کر بنتی ہے۔ مشکلات بھی آتی ہیں۔ لوگ حوصلہ افزائی نہیں کرتے، اب بھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ آپ نہ آئیں اس بزنس میں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک مشکل کام تو ہے مگر مجھے یہ ڈر ہرگز نہیں کہ ہم ناکام ہو جائیں گے۔‘
ہما بتول کہتی ہیں خواتین ہر کام کرسکتی ہیں مگر ضروری ہے کہ ماں باپ اور خاص طور پر خاندان کے مردوں کی جانب سے اُنھیں مدد اور حمایت فراہم کی جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ اُنھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ’یہ سننے کو ملتا تھا کہ تم نے کیا کیا ہے؟ جو افسوسناک ہے کیونکہ میں نے بہت کچھ کیا ہے۔ لیکن میں آج اپنے شوہر کو کریڈٹ دیتی ہوں جو تسلیم کرتے ہیں کہ میرا اس تمام سفر میں نہایت اہم کردار رہا ہے۔‘