آج کی کہانی ایک ایسی عمارت کی ہے، جو اپنے دور کی ایک خوبصورت اور یورپین طرز تعمیر کی عمارت تھی۔ انگریز دور میں کراچی کی ترقی میں پارسیوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے. ھرمسجی جمشید جی رستم جی بھی ایک پارسی صنعتکار تھے، وہ سیاح بھی تھے. اس دور میں انہوں نے بہت سے ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ ان سیاحتی دوروں کے دوران اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کراچی میں اس کی کمپنی "رستم جی اینڈ کمپنی” کے لیے ایک ایسی عمارت تعمیر کی جائے جو منفرد ہو۔
یورپ سے تعمیراتی تصور لے کر انہوں نے اس مقصد کے لیے بندر روڈ اور میکلوڈ روڈ کے سنگم پر میری ویدر ٹاور کے ساتھ زمین خریدی۔ جو تعمیراتی تصور لے کر وہ کراچی آیا تھا، اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ھرمسجی جمشید جی رستم جی نے اس دور میں کراچی کے مشہور آرکیٹیکٹس سے رابطے کیے۔ ھرمسجی جمشید جی نے اس کام کے لیے کراچی میونسپلٹی کے مشہور آرکیٹیکٹ جیمس اسٹریچن کو چُنا۔ جیمس اسٹریچن نے اس کے تصور سے بھی کہیں زیادہ اس عمارت کو ڈیزائن کرکے دیا۔
جیمس اسٹریچن کی نگرانی میں یہ عمارت 1891ع میں مکمل ہوئی. یہ اس وقت کی بات ہے، جب میری ویدر ٹاور بھی زیر تعمیر تھا. یہ عمارت میری ویدر ٹاور سے ایک سال پہلے مکمل کی گئی۔ یہ دونوں کام جیمس اسٹریچن کی نگرانی میں مکمل ہوئے تھے۔
رستم جی عمارت میں اسٹریچن نے اٹلی میڈیوال انگلش گوتھک اسٹائلMediwal English Gothic Style کے طرز کی جھلکیاں رکھیں. ایسی عمارتیں اس دور میں عموماً انگلینڈ، جارجیا اور دوسرے یورپین ملکوں میں تھیں. تین منزلہ، پتھر کی اس عمارت کے دروازے اور کھڑکیاں لکڑی کی تھیں. 60 فٹ اونچی اس عمارت کے تمام کمروں اور ھال کے فرش خوبصورت موزائک ٹائلز کے تھے.
8000 اسکوائر وال پر مبنی یہ عمارت رستم جی اینڈ کمپنی کے آفس کے سوا Ware House بھی تھا۔ کمپنی کے آفس میں یورپین اصولوں کو اپنایا گیا تھا. اس عمارت کا ایک مکمل فلور دنیا کے بزنس مینوں اور بیوپاری سیاحوں کے لیے مخصوص تھا۔ اسی فلور میں ایک بڑے ھال میں پوری دنیا میں بنے والی مختلف اشیاء کے نمونے رکھے ہوئے تھے۔ یہاں پر صنعتی نمائشیں بھی لگا کرتی تھیں۔
4 نومبر 1891ع عمارت کا افتتاح بمبئی کے گورنر لارڈ ھاریس(Lord Harris) نے کیا. گورنر نے عمارت کی چھت سے کراچی کا نظارہ بھی کیا. اس عمارت کے چھت سے منھوڑا، کلفٹن اور منگھو پیر کی پہاڑیاں نظر آتی تھیں۔
اس عمارت کا ذکر سندھ گزیٹیئر 1891 میں بھی ہے۔ اس عمارت کا ذکر بہت سے یورپی سیاحوں کی ڈائریوں میں بھی ہے۔عمارت میں ایک وزیٹر بک بھی رکھی ہوئی تھی۔
ھرمسجی جمشید جی رستم جی کے وفات کے بعد اس کے بیٹوں نے یہ خوبصورت عمارت نو لاکھ میں ایک بوھری تاجر سیٹھ آدم جی لقمان جی کو 1919ع میں فروخت کردی۔ تقسیم تک یہ شاندار عمارت موجود تھی۔
تقسیم کے بعد نئے مالک کے ایک حکم پر ایک دن بلڈوزروں نے اس عمارت کو زمین بوس کردیا. پیسوں کی ہوّس نے ایک خوبصورت تاریخ کو ہمیشہ کے لیے ملیا میٹ کردیا. جس وقت بلڈوزر اس عمارت کو زمین بوس کررہے تھے، تو ھرمسجی جمشید جی رستم جی اور جیمس اسٹریچن کے روحیں بھی تڑپی ہونگی، جنہوں نے دن رات محنت کرکے اس شاہکار کو مکمل کیا تھا. کراچی کے بہت سے پرانے باسیوں کی آنکھوں میں آنسو آئے ہونگے، پر سب بے بس تھے.. یہ بے بسی ایک دن ہم سے ہماری تاریخ بھی چھین لے گی.
اب اس جگہ کسی بینک کی عمارت ہے ، اس تصویر میں ٹاور کے یہ عمارت دیکھی جا سکتی ہے، اس عمارت کو ہم صرف اب تصویروں میں ہی دیکھ سکتے ہیں..