اگر ہم آپ سے یہ پوچھیں کہ ”سب سے بڑا دریا کون سا ہے؟“
تو آپ کا جواب کیا ہوگا… کیا اکثر لوگوں کی طرح آپ بھی دریائے نیل، دریائے مسسیپی یا ایمازون کا ہی نام لیں گے..؟
لیکن اس کا جواب آپ کی توقع کے بلکل برعکس ہے، اور وہ یہ ہے کہ دنیا کے چند سب سے بڑے دریا زمین پر نہیں، بلکہ آسمان پر بہتے ہیں!
جی ہاں.. آپ نے بلکل صحیح پڑھا.. آسمان پر بہتے یہ دریا طاقتور طوفان برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جیسا کہ حال ہی میں شمالی کیلی فورنیا میں دیکھا گیا ہے!
یہ دراصل آبی بخارات ہیں جو آسمان میں طویل پٹیوں کی صورت میں محو سفر ہوتے ہیں، انہی کو ’فضائی دریا‘ کا نام دیا گیا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بلکل دریا ہی کی طرح پانی کی ایک بہت بڑی مقدار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں. بلند عرض بلد تک پھیلی ہوئی نمی کی تنگ پٹیوں پر مشتمل یہ فضائی دریا کافی طویل ہیں
آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ آسمان میں موجود ان دریاؤں میں دریائے مسسیپی کے حجم سے بھی پندرہ گنا زیادہ پانی موجود ہوتا ہے!
یہ نمی ساحل پر پہنچنے کے بعد وہاں سے ملک کے اندرونی حصے کی جانب بڑھتی ہے اور پہاڑوں کے اوپر آ جاتی ہے، جس سے ان علاقوں میں بارش اور برف باری ہوتی ہے
اگرچہ جنگل کی آگ اور آئے روز اس کی تباہیوں سے تنگ آئے ہوئے مغرب کے بہت سے لوگ ایسی موسلادھار بارشوں سے خوش ہوتے ہیں، لیکن ان ”فضائی دریاؤں“ کا صرف فائدہ ہی نہیں، بلکہ یہ سیلاب اور پہاڑوں سے ملبے کے بہاؤ جیسی دیگر کئی آفات بھی اپنے ساتھ لا سکتے ہیں
گذشتہ دو عشروں کے دوران سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے موسم کا مشاہدہ کر کے پیشنگوئی کرنے کی صلاحیتوں میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے، اس لیے سائنس دانوں نے اس موسمیاتی معاملے کے بارے میں بھی کافی اہم معلومات حاصل کی ہیں
ان دریاؤں کی موجودگی کسی ایک علاقے یا خطے تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ پرتگال، مغربی یورپ، چلی اور جنوبی افریقہ سمیت مغربی ساحل کے بہت سے ملکوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ ہوائی سے امریکہ کے مغربی ساحل تک نمی پہنچانے والے ”پائن ایپل ایکسپریس“ نامی طوفان ان کی بہت سے اقسام میں سے ایک ہے
امریکا کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں ماحولیاتی سائنس اور سمندری تحقیق کے ادارے میں پوسٹ ڈاکٹرل سکالر ٹام کورنگم ’دا کنورسیشن‘ پر شائع ہونے والے اپنی تحقیقی تحریر میں لکھتے ہیں کہ ”حال ہی میں میری نگرانی میں سکرپس انسٹیٹیوشن آف اوشیانوگرافی اور امریکی فوج کی انجینیئرنگ کور کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم نے پہلی مرتبہ منظم طریقے سے ان نقصانات کا جائزہ لیا، جو فضائی دریاؤں کے سیلابوں کے نتیجے میں ہوئے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگرچہ بہت سے اس طرح کے واقعات ملتے ہیں جن کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں، لیکن مختلف وقتوں میں سیلاب نے سب سے زیادہ تباہی مغربی امریکا میں مچائی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پیشین گوئی بھی کی جا رہی ہے کہ بڑھتے ہوئے گرم ماحول میں فضائی دریا زیادہ طویل، زیادہ مرطوب اور زیادہ وسیع ہو جائیں گے۔“
ٹام کورنگم لکھتے ہیں کہ:
”27 فروری 2019ع کو شمالی بحرالکاہل سے لے کر شمالی کیلی فورنیا کے ساحل تک پھیلے ایک فضائی دریا نے آسمان پر بخارات کی سارھے تین سو میل چوڑی اور سولہ سو میل لمبی آبی پٹی چھوڑی. سان فرانسسکو بے کے ساتھ ہی شمال میں موجود شراب سازی کے لیے مشہور سونوما کاؤنٹی میں طوفان کی وجہ سے بارش کا پانی اکیس انچ تک پہنچ گیا۔ اسی علاقے میں دریائے روس 45.4 فٹ کی بلندی تک پہنچ گیا، جو سیلاب کی سطح سے 13.4 فٹ زیادہ بلندی بنتی ہے!
ان کے مطابق ”گذشتہ چار دہائیوں میں پانچویں مرتبہ ایسا ہوا کہ گورن وِلا کا قصبہ زیریں دریائے روس کے گندے بھورے سیلابی پانی میں ڈوب گیا۔ صرف سونوما کاؤنٹی میں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ دس کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ تھا“
ٹام کورنگم نے اپنے مضمون میں مزید لکھا ہے کہ:
”اگرچہ حالیہ برسوں میں اس طرح کے واقعات نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے لیکن فضائی دریا کوئی نئی بات نہیں۔ وہ لاکھوں برس سے آسمان میں گھومتے ہوئے خط استوا سے پانی کے بخارات قطبین کی طرف لے جا رہے ہیں
1960ع کے عشرے میں ماہرین موسمیات نے طوفان کے رستے کو بیان کرنے کے لیے ’پائن ایپل ایکسپریس‘ کی اصطلاح وضع کی تھی، جو ہوائی کے قریب سے شروع ہو کر گرم پانی کے بخارات شمالی امریکا کے ساحل سے تک لے جاتے ہیں۔ 1990ع کے عشرے کے اواخر تک ماحولیاتی سائنس دانوں نے جان لیا کہ ٹراپکس اور ذیلی ٹراپکس علاقوں کی 90 فیصد سے زائد نمی ایسے ہی نظاموں کے ذریعے بلند عرض بلد تک پہنچتی ہے، جسے انہوں نے ’فضائی دریاؤں‘ کا نام دیا
فضائی دریاؤں کے فائدے اور نقصان کے بارے میں وہ یوں رقم طراز ہیں:
”جب ہر طرف خشکی کا دور دورہ ہو، اس وقت تو فضائی دریا پانی کی کمی پوری اور جنگلات میں لگنے والی خطرناک آگ کو بجھا سکتے ہیں، لیکن جب پانی کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو پھر یہ دریا نقصان دہ سیلابوں اور ملبے کے بہاؤ کا سبب بن سکتے ہیں جس سے مقامی معیشتیں تباہ ہو کر رہ جاتی ہے
جب ہم نے فضائی دریاؤں کے واقعات سے متعلق ”سکرپس انسٹیٹیوشن کے سینٹر فار ویسٹرن ویدر اینڈ واٹر ایکسٹریمز” کا مرتب کردہ ایک کیٹلاگ استعمال کیا اور اسے چالیس سالہ سیلاب انشورنس ریکارڈ اور قومی موسمیاتی خدمات (National Weather Service) کے بیان کردہ بیس سالہ نقصانات کے تخمینے سے ملایا، تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مغربی امریکا میں ہر سال سیلاب کی وجہ سے اوسطاً 1.1 ارب ڈالرز کے نقصانات ہوتے ہیں۔ مغرب میں سیلاب سے ہونے والے جن برسوں کے نقصانات کا مطالعہ ہم نے کیا ان میں سے اسی فیصد سے زیادہ کا تعلق فضائی دریاؤں سے تھا۔ جبکہ شمالی کیلی فورنیا جیسے کچھ ایسے علاقے بھی تھے، جہاں 99 فیصد سے زیادہ نقصانات کی وجہ یہ نظام تھے
ہمارے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایک اوسط درجے کے سال میں میکسیکو کے علاقے باہا کیلیفورنیا اور کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے درمیان کسی جگہ بحر الکاہل کے ساحل پر چالیس فضائی دریا گرتے ہیں۔ زیادہ تر یہ ایسے واقعات تھے جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی: تقریباً نصف کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا اور ان طوفانوں نے علاقے کو پانی سے لبریز کر دیا“
ٹام کورنگن نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ ”ہم نے حال ہی میں تیار ہونے والا فضائی دریاؤں کی درجہ بندی کرنے والا پیمانہ استعمال کیا، جو طوفانوں کی ایک سے لے کر پانچ تک درجہ بندی کرتا ہے، یہ سمندری طوفانوں اور بگولوں کی درجہ بندی کرنے والے نظام کی طرح کا ہے. مشاہدے میں آنے والے نقصانات اور ان کیٹیگریز میں واضح تعلق تھا۔ ماحولیاتی دریا کیٹیگری 1 (AR1) اور AR2 طوفانوں نے دس لاکھ ڈالر کے تخمینے سے کم کا نقصان پہنچایا ہے۔ AR4 اور AR5 طوفانوں نے کروڑوں ڈالرز کی تباہی مچائی ہے۔ AR4s اور AR5s کے سب سے زیادہ تباہ کن طوفانوں نے فی طوفان کے حساب سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا۔ یہ اربوں ڈالر نقصان پہنچانے والے طوفان ہر تین سے چار سال بعد آتے ہیں“
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”کئی حالیہ جائزوں نے ان خطوط کو واضح کیا ہے، جن پر آئندہ دہائیوں میں فضائی دریا تبدیل ہوں گے۔ یہ طریقہ بہت سادہ سا ہے، گرین ہاؤس گیسیں ماحول کی تپش جذب کرتی ہیں، جس سے کرہ ارض زیادہ گرم ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے سمندروں اور جھیلوں سے زیادہ پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور ہوا میں نمی بڑھنے سے طوفان کے نظام مضبوط ہوتے ہیں۔ سمندری طوفانوں کی طرح زیادہ گرم موسم میں فضائی دریا بھی زیادہ طویل، زیادہ وسیع اور زیادہ مرطوب ہو جاتے ہیں“