کابل : افغانستان میں حالیہ دہشتگردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنء والے شدت پسند گروپ داعش میں امریکی تربیت یافتہ سابق افغان فوجیوں کی شمولیت کا انکشاف سامنے آیا ہے
العربیہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عراق پر سنہ 2003ع میں امریکی یلغار کے بعد صدام حسین کی فوج بکھرنے کے بعد شدت پسند تنظیم ’داعش‘ میں شامل ہونے لگی تو اس پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے سخت تشویش کا اظہار کیا تھا
رپورٹ کے مطابق کچھ ایسا ہی اس وقت افغانستان میں ہو رہا ہے، جہاں سے آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے کابل میں اقتدار سنھبالنے سے قبل امریکی فوج کی نگرانی میں تربیت حاصل کرنے والی سابق افغان آرمی کے اہلکار ’داعش‘ کی صفوں میں شامل ہونے لگے ہیں
افغان انٹیلی جنس سروس کے کچھ سابق ارکان اور ایلیٹ فورس اہلکار جنہیں امریکا نے تربیت دی تھی اور طالبان کی آمد کے بعد وہ فرار ہو کر انڈر گراؤنڈ چلے گئے تھے، اب وہ داعش میں شامل ہوگئے ہیں
امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل” کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد گروہ میں شامل ہونے والے منحرف سابق فوجیوں کی تعداد نسبتاً کم ہے، لیکن اس میں اضافہ ہو رہا ہے
مزید اہم بات یہ ہے کہ ’آئی ایس آئی ایس‘ میں نئے شامل ہونے والے امریکی تربیت یافتہ سابق افغان فوجی اہلکار انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے اور جنگی تکنیکوں میں اہم مہارت رکھتے ہیں۔ یہ سابق فوجی طالبان کی بالادستی کا مقابلہ کرنے کے لیے شدت پسند گروپ داعش کی صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں
افغان نیشنل آرمی کا ایک افسر جس نے جنوب مشرقی صوبہ پکتیا کے صدر مقام گردیز میں فوج کے اسلحہ اور گولہ بارود کے ڈپو کی کمانڈ کی تھی شدت پسند گروپ کی علاقائی شاخ خراسان صوبہ میں شمولیت اختیار کی تھی اور ایک ہفتہ قبل طالبان جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا تھا
ایک سابق اہلکار نے بتایا کہ کئی دوسرے سابق فوجی، جن کو وہ جانتے ہیں، سابق افغان جمہوریہ میں انٹیلیجنس اور فوج کے تمام ارکان نے بھی داعش میں شمولیت اختیار کی ہے۔ طالبان نے ان کے گھروں کی تلاشی لی اور ان پر زور دیا کہ کہ وہ خود کو ملک کے نئے حکام کے سامنے پیش کریں
اسی طرح کابل کے شمال میں واقع ضلع کاراباخ کے ایک رہائشی نے بتایا کہ اس کا کزن، افغان اسپیشل فورسز کا سابق اہم رکن ستمبر میں لاپتہ ہو گیا تھا اور اب داعش کے ایک سیل کا رکن ہے
اس نے بتایا کہ افغان نیشنل آرمی کے چار دیگر ارکان، جن کو وہ شخص جانتا تھا، حالیہ ہفتوں میں داعش تنظیم میں شامل ہو گئے تھے
افغانستان کی جاسوسی ایجنسی (نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی) کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے کہا کہ کچھ علاقوں میں داعش افغان سیکیورٹی اور دفاعی فورسز کے سابق ارکان کے لیے بہت پرکشش تنظیم بن گئی ہے۔ خاص طور پر ایسے فوجی، جو ملک نہیں چھوڑ سکے وہ داعش کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ اگر طالبان کے خلاف مزاحمت ہوتی تو وہ (سابق افغان فوجی) اس میں شامل ہو جاتے، لیکن اس وقت داعش واحد دوسرا مسلح گروہ ہے
واضح رہے کہ ستمبر کے اوائل میں طالبان فورسز نے پنجشیر وادی میں ایک نئی مزاحمتی تحریک کو کچل دیا، جس کی قیادت احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کر رہے تھے
اس وقت جمہوریہ افغانستان میں ہزاروں انٹیلیجنس افسران، فوجی اور سابق پولیس اہلکار طالبان کی طرف سے عام معافی کے وعدوں کے باوجود بے روزگار اور خوفزدہ ہیں
ان میں سے ایک چھوٹا سا حصہ زیادہ تر نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی میں طالبان کی نگرانی میں کام پر واپس آیا ہے لیکن، تقریباً تمام افغان سرکاری ملازمین کی طرح انہیں کئی مہینوں سے تنخواہ نہیں مل سکی
ایک سینیر مغربی اہلکار نے خبردار کیا کہ یہ بالکل وہی صورتحال ہے، جو عراق میں مصلوب صدر صدر صدام حسین کے مایوس جرنیلوں کے ساتھ تھی. جہاں امریکا نے جب 2003ع میں عراق پر حملے کے بعد عراقی سکیورٹی فورسز کو تحلیل کر دیا تھا۔ان میں سے بہت سے مسلح عناصر بعد میں القاعدہ اور داعش میں شامل ہو گئے تھے
سیکیورٹی حکام نے کہا کہ داعش ان عناصر کو تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ افغانستان میں اپنے نئے ارکان کو بڑی رقم بھی ادا کرتی ہے.