کراچی : ہم اکثر براہ راست یا سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں سے سنتے رہتے ہیں کہ مارکیٹ میں چین سے آنے والے جعلی انڈے بیچے جا رہے ہیں. آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں پلاسٹک کے انڈے فروخت ہونے والی اس بات میں کتنی سچائی ہے
اگر آپ کو یاد ہو توکچھ عرصہ پہلے میڈیا پر خبریں چلی تھیں کہ کراچی میں پولیس چھاپے کے دوران پلاسٹک کے انڈوں کی ایک گاڑی پکڑی گئی ہے جو مارکیٹوں میں یہ انڈے سپلائی کرتے تھے
صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شہر کے بارے میں ایسی خبریں گردش میں رہتی ہیں کہ بازار میں چین سے آنے والے جعلی انڈے فروخت کیے جا رہے ہیں
پلاسٹک کے یا مصنوعی انڈے
سڈنی یونیورسٹی کی طرف سے مصنوعی انڈوں کے بارے میں شایع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے مصنوعی انڈوں کی تیاری کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے
جس کے مطابق اکیسویں صدی میں انسانوں نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ انہوں نے قدرتی اشیا کے اجزاء کے بارے میں جان کر اب ان کی مصنوعی شکلیں بنانی شروع کر دی ہیں، جس میں انڈے بھی شامل ہیں
مقالے میں بتایا گیا ہے کہ یہ انڈے شکل میں بالکل اصلی انڈوں کی طرح لگتے ہیں لیکن یہ مصنوعی طریقے سے فیکٹری میں مخلتف کیمیکل کو ملا کر بنائے جاتے ہیں اور پھر مارکیٹوں میں بھیجے جاتے ہیں، جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ چین میں بنائے جاتے ہیں
سڈنی یونیورسٹی کے اس تحقیقی مقالے کے مطابق مصنوعی انڈوں کو بنانے کے لیے درکار مواد مارکیٹ میں سستے داموں دستیاب ہوتا ہے۔ مصنوعی انڈوں کے چھلکوں کو بنانے کے لیے کیلشیئم کاربونیٹ، میگنیشیم کاربونیٹ، ٹرائی کیلشیئم فاسفیٹ، پروٹین، اولبومین اور لائسوزیم جیسے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں
اسی طرح سفیدی بنانے کے لیے گلوبولین، اوگلائیکو پروٹین، سیسٹین اور اسی طرح دیگر کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں، جب کہ انڈے کی زردی بنانے کے لیے سیرم البومین، لائیو ٹین اور دیگر مخلتف کیمیلز استعمال ہوتے ہیں
مقالے کے مطابق ان انڈوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے بینزوئک ایسڈ استعمال ہوتا ہے، جب کہ رنگت کے لیے خوراک کے مختلف مصنوعی رنگ استعمال کیے جاتے ہیں اور اس کو نرم کرنے کے لیے الم استعمال ہوتا ہے
مقالے میں بتایا گیا ہے کہ سوڈیم الگینیٹ کا محلول بنایا جاتا ہے، جس سے ایک شفاف سا لیکوئڈ بن جاتا ہے، اس کے بعد اس میں سے تھوڑی سی سفیدی کو الگ کیا جاتا ہے اور اس میں لیموں والا رنگ ڈالا جاتا ہے، تاکہ زردی کو الگ کیا جا سکے اور پھر سفیدی اور زردی کو ملا دیا جاتا ہے۔ بعد میں انہیں انڈے کی طرز کے خانوں میں رکھ دیا جاتا ہے
جہاں تک پاکستان میں مصنوعی انڈے بنائے جانے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے کراچی یونیورسٹی کے فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید محمد غفران سعید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی کیس نہیں پکڑا گیا، جہاں پر مصنوعی طریقے سے انڈے تیار کیے جاتے ہوں
اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انڈے ویسے بھی بہت کم قیمت پر دستیاب ہیں، جب کہ اگر مصنوعی طریقے سے انہیں تیار کیا جائے تو یہ مہنگے پڑیں گے
تاہم ڈاکٹر سید محمد غفران سعید کا کہنا تھا کہ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ گرمیوں میں انڈوں کو کولڈ اسٹوریج میں رکھ دیا جاتا ہے اور تھوڑے عرصے بعد جب اسے نکالا جاتا ہے تو اس میں ڈی نیچوریشن کی وجہ سے مسئلہ آجاتا ہے اور پھر لوگ کہتے ہیں کہ یہ جعلی انڈہ ہے
مصنوعی انڈے انسانی صحت کے لیے کتنے مضر؟
ایک تحقیقی مقالے کے مطابق ایک بڑے سائز کے انڈے میں چھ گرام پروٹین ہوتی ہے جس میں سے آدھی پروٹین انڈے کی سفیدی میں ہوتی ہے۔ اس میں آئرن، فولیٹ، وٹامن بی، ڈی ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے
انڈے کی زردی میں آئرن زیادہ ہوتا ہے جو ان افراد کے لیے مفید ہوتا ہے جن میں آئرن کی کمی ہو
تاہم مصنوعی انڈے چونکہ کیمیکلز سے تیار کیے جاتے ہیں، اس لیے ان کے انسانی صحت کے لیے مضر ہونے میں کوئی دو رائے نہیں
تحقییقی مقالے کے مطابق مصنوعی انڈے جگر اور خون کی کمی جیسی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں، جب کہ ان کے کھانے سے معدہ بھی خراب ہو سکتا ہے
اسی طرح ان انڈوں میں استعمال ہونے والا سوڈیم الگینیٹ خون کی رفتار کو تیز کرتا ہے، جس سے شریان میں خون کا دباؤ بڑھ سکتا ہے جب کہ یہ ہڈیوں کو کمزور اور گردے کو خراب بھی کر سکتا ہے
اس حوالے سے خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈاکٹر عبدالستار کا کہنا ہے کہ کسی کیمیکل سے بنائی گئی کوئی بھی چیز کھانے سے انسانی صحت پر برا اثر ضرور پڑتا ہے، کیونکہ انسانی جسم قدرتی طور پر بنی خوراک کو ہضم کرنے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن کیمیکلز کے مضر اثرات کی وجہ سے صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں
جعلی اور اصلی انڈے کی پہچان
ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق مصنوعی اور اصلی انڈے کی پہچان مشکل کام نہیں
انہوں نے بتایا : اصلی انڈے کے خول کے بعد ایک دوسری پتلی سی تہہ ہوتی ہے، جب کہ مصنوعی انڈے میں یہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر اصلی انڈے کو آپ کھلا رکھ دیں تو مکھیاں اس کے اوپر جمع ہو جائیں گی جب کہ مصنوعی انڈہ چونکہ کیمیکل سے بنا ہوتا ہے، اس لیے مکھیاں اس پر نہیں بیٹھتیں
ڈاکٹر غفران کہتے ہیں کہ اصلی انڈے کی زردی کے اوپر ایک باریک سفید اسپاٹ (Spot) نظر آتا ہے جو اندر کی طرف جاتا ہے اور یہی اسپاٹ منی سے مل کر اس سے چوزہ بنتا ہے
اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ اگر آپ اصلی انڈے کو روشنی میں دیکھیں گے تو اس کے اوپر آپ کو چھوٹے سے سوراخ نظر آئیں گے، جبکہ مصنوعی انڈے میں یہ نظر نہیں آتے
تاہم ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق لوگ اگر یہ کہیں کہ انڈے کے ذائقے میں مسئلہ ہے اس لیے یہ جعلی ہے، تو یہ بات ذہن میں رہے کہ انڈوں کے استعمال کی میعاد کم ہوتی ہے اور بعض اوقات جب درجہ حرارت 30 ڈگری سنٹی گریڈ سے اوپر چلا جائے تو انڈہ خراب ہو جاتا ہے اور اس کے ذائقے میں مسئلہ آجاتا ہے. اس لیے ذائقے سے اس کے اصلی یا مصنوعی ہونے اندازہ لگانا درست نہیں.