نیو دہلی : کسانوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد بالآخر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا ہے کہ ستمبر 2020 میں منظور ہونے والے نئے زرعی قوانین واپس لے لیے جائیں گے، جن کے خلاف کسانوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا تھا
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے جمعے کو قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ آج میں آپ کو اور پورے ملک کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ماہ ہونے والے پارلیمان کے اجلاس میں ہم تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا عمل مکمل کر لیں گے
نریندر مودی کا کہنا تھا کہ حکومت کی کسانوں، خاص طور پر چھوٹے کسانوں، کو مضبوط کرنے کی کوششوں کے باوجود کسان ان قوانین سے مطمئن نہیں ہیں، اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں ختم کر دیا جائے
دوسری جانب یونائیٹڈ کسان مورچہ نے نریندر مودی کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنا احتجاج فوری طور پر ختم نہیں کریں گے اور پارلیمانی طریقہ کار کے ذریعے اس اعلان پر عمل درآمد ہونے کا انتظار کریں گے
کسانوں کی تحریک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ انڈیا میں ایک سال سے زائد عرصے سے جاری کسانوں کی جدوجہد کی ایک تاریخی فتح ہوگی
واضح رہے کہ پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش کے کسان پچھلے ایک سال سے ان قوانین کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں
نومبر 2020ع سے دارالحکومت دہلی کے مضافات میں ہزاروں کی تعداد میں کسان احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں، جن میں سے زیادہ کا تعلق بھارتی پنجاب سے ہے
یاد رہے رواں سال جنوری میں دہلی میں ہونے والی ٹریکٹر ریلی کے دوران یہ مظاہرے پرتشدد شکل اختیار کر گئے تھے جن میں ایک کسان ہلاک جب کہ سینکڑوں پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے. اس کے علاوہ گذشتہ ماہ ریاست اترپردیش میں ہونے والے مظاہروں میں مزید آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے
اس جدوجہد کی وجہ سے مودی حکومت کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا رہا ہے ۔ بھارت کی 1.3 ارب آبادی کا تقریباً دو تہائی حصہ زرعات کے شعبے سے منسلک ہے، جو ایک عرصے سے سیاسی جنگ بازی کا مرکز بھی بنا ہوا ہے
یاد رہے کہ مودی حکومت نے گذشتہ سال یہ کہہ کر یہ قوانین متعارف کروائے تھے کہ ان سے اس صعنت میں ادائیگیوں کے نظام میں بہتری آئے گی، تاہم کسانوں کا ماننا تھا کہ قوانین انہیں بڑی کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے.