ملک میں سماء ٹی وی چینل کی فروخت پر بحث چھڑ گئی

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – پاکستان کے معروف نجی ٹی وی چینل سماء کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور صوبہ پنجاب کے سینیئر وزیر علیم خان نے خرید لیا ہے، جس کے بعد ملک کے کئی حلقوں میں یہ معاملہ بحث کا موضوع بن گیا ہے

اطلاعات کے مطابق ٹی وی چینل سماء کو خریدنے کا عمل کچھ ہفتے پہلے عمل میں آیا۔ اس حوالے سے کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سیاست دانوں کو میڈیا ہاؤسز کا مالک نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اس سے رائے عامہ متاثر ہو سکتی ہے اور اس کا اثر انتخابات پر بھی ہو سکتا ہے۔ جبکہ  کچھ کے خیال میں مالک کوئی بھی ہو، لیکن کسی بھی ادارے کا ادارتی بورڈ غیر جانبدار ہونا چاہیے

پاکستان میں حالیہ برسوں میں مختلف میڈیا ہاؤسز پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرتے ہیں۔ مثلا پی ٹی آئی کے کئی رہنما جنگ گروپ اور جیو پر یہ الزام لگاتے رہے کہ وہ نون لیگ کے حامی ہیں، دوسری جانب نون لیگ کی طرف سے سماء چینل اور اے آر وائی نیوز پر پی ٹی آئی نواز ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے

کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے، جب اس حوالے سے پاکستان کی صحافتی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر توصیف احمد خان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پچاس کی دہائی میں جماعت اسلامی نے ”تسنیم“ کے نام سے ایک پرچہ نکالا، جبکہ ”پاکستان ٹائمز“ ، ”امروز“ اور ”لیل و نہار“ افتخار الدین کی طرف سے نکالے گئے، جن کو اشتراکی خیالات کا سیاست دان سمجھا جاتا تھا۔ ان کے ادارے میں نامور ترقی پسند شعراء اور رہنماؤں نے کام بھی کیا جن میں فیض احمد فیض اور سبط حسن بھی شامل تھے۔ اسی طرح روزنامہ ”مساوات“ اور ہفت روزہ ”نصرت“ کو پیپلز پارٹی کا حمایتی سمجھا جاتا تھا

ا
ڈاکٹر توصیف احمد نے مزید کہا کہ اسی کی دہائی میں روزنامہ ”امن“ بھی پیپلز پارٹی کا حامی سمجھا جاتا تھا۔ جماعت اسلامی نے ”جسارت“ اخبار نکالا، جبکہ ہفتہ روزہ ”تکبیر“ اور ”غازی“ جماعت اسلامی سمیت مختلف مذہبی تنظیموں کے حامی سمجھے جاتے رہے ہیں۔ روزنامہ ”امن“ نوے کی دہائی کے بعد ایم کیو ایم کا حامی بن گیا تھا

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ غیر جانبدارانہ صحافت کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا ہاؤس کا کنٹرول یا اس کے مالکان سیاسی جماعت سے نہ ہوں

یونین کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی کہتے ہیں کہ دنیا کے جمہوری ممالک میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر آپ اخبار کے مالک ہیں، تو آپ چینل نہیں کھول سکتے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ اجازت بھی دی گئی اور زیادہ تر چینلز اخبارات کے مالکان ہی لے کر آئے

ان کا مزید کہنا تھا کہ اصولی طور پر تو کسی سیاسی شخصیت کو کسی چینل یا میڈیا ہاؤس کا مالک نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ جمہوری کلچر میں رائے عامہ بہت ضروری ہوتی ہے

ناصر زیدی کہتے ہیں کہ علیم خان کو چینل نہیں خریدنا چاہئے تھا، لیکن اب انہوں نے چینل خرید لیا ہے تو اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ ادارتی بورڈ غیر جانبدار ہو اور اس میں علیم خان کی بالکل بھی مداخلت نہ ہو

کچھ ناقدین کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما کے اس چینل کو پارٹی پراپیگنڈہ کے لئے استعمال کیا جائے گا، تاہم کچھ اس سے اختلاف کرتے ہیں

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ علیم خان ایک کاروباری آدمی ہیں اور مارکیٹ میں یہ خبریں گرم ہیں کہ یہ چینل ان کو بہت مناسب دام میں مل گیا ہے، اگر وہ نئے چینل کھولتے تو انہیں اسٹاف بھی مشکل سے ملتا اور مارکیٹ میں جگہ بنانے میں بھی وقت لگتا۔ سماء قومی دھارے کا چینل ہے اور علیم خان کو اس کے لئے وہ محنت نہیں کرنی پڑے گی، جو نئے چینل کے لیے کی جاتی ہے

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ 2023 کے انتخابات کے وقت یہ پتہ چلے گا کہ آیا اس چینل اور سیاست کو کوئی تعلق ہے یا نہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close