قندھار – طالبان کی جانب سے کابل کی فتح کو نومبر میں تین ماہ گزر جانے کے بعد آج بھی یہ سوال موجود ہے کہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ زندہ ہیں یا پھر ملا عمر کی طرح ان کی موت کو چھپایا جا رہا ہے؟
اس عرصے کے دوران خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اخوندزادہ کی کھوج میں اپنی تحقیق کی، مگر نتیجہ ایک معمہ کی صورت میں ہی نکلا
اقتدار سنبھالنے کے دو ماہ بعد 30 اکتوبر کو طالبان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ اخوندزادہ قندھار میں ہیں، وہ زندہ اور ٹھیک ہیں۔ اس وقت افغانستان کے جنوبی شہر میں یہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ طالبان امیر نے ایک مدرسے میں تقریر کی تھی
دس منٹ طویل ایک آڈیو ریکارڈنگ کی بنیاد پر طالبان کے عہدیداروں نے مدرسہ حکیمیہ میں ان کی موجودگی پر صداقت کی مہر لگا دی تھی
آڈیو میں ایک عمررسیدہ مگر گونجتی ہوئی آواز، جو کہ طالبان کے سپریم لیڈر کی بتائی جارہی تھی، میں اخوندزادہ نے کہا: ’خدا افغانستان کے مظلوموں کو اجر دے، جنہوں نے بیس سال تک کافروں اور ظالموں سے لڑائی کی۔‘
اس سے قبل ان کا عوامی پروفائل بڑی حد تک اسلامی تعطیلات کے لیے جاری کیے جانے والے سالانہ تحریری پیغامات تک محدود تھا
اے ایف پی کے مطابق قندھار کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک میں، کوڑے سے بھری ایک ندی اور کچرے سے بھرے راستے کے درمیان، مدرسہ حکیمیہ کے دروازے کے سامنے دو طالبان جنگجو پہرے پر کھڑے تھے۔ مدرسہ حکیمیہ کی سکیورٹی کے سربراہ معصوم شکر اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب سپریم لیڈر نے دورہ کیا تو وہ ’مسلح‘ تھے اور ’تین سیکیورٹی گارڈز‘ کے ساتھ تھے
انہوں نے مزید کہا: ’یہاں تک کہ سیل فون اور ساؤنڈ ریکارڈرز‘ کو بھی پنڈال میں لے جانے کی اجازت نہیں تھی
اس واقعے کی گونج کے بعد سے طالبان کے حامی بڑی تعداد میں پھر سے متوجہ ہونے لگے اور اپنی تحریک کے سربراہ کے لیے ان میں نیا جذبہ بیدار ہوا
طالب علموں میں سے ایک انیس سالہ محمد نے طالبان سپریم لیڈر کی آمد کے بارے میں کہا کہ ہم سب انہیں دیکھ رہے تھے اور بس رو رہے تھے
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ یہ یقینی طور پر اخوندزادہ ہی تھے؟ تو محمد نے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی اس قدر خوش تھے کہ وہ ان کا چہرہ دیکھنا بھی بھول گئے
واضح رہے کہ طالبان رہنماؤں کی طرف سے غائبانہ پیغامات بھیجنے اور منظر عام سے غائب رہنے کی حکمت عملی خاص طور پر جنگ کی آخری دہائی میں اس وقت سامنے آئی، جب امریکی ڈرون حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا تھا
2016ع میں ایسے ہی ایک حملے میں ان کے پیشرو ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد اخوندزادہ طالبان تحریک کے سربراہ کے مقام تک پہنچ گئے
طالبان نے گزشتہ پانچ برس کے دوران آخونزادہ کی صرف ایک تصویر جاری کی ہے، جب وہ اس عسکری تنظیم کے سربراہ کا عہدہ سنبھال رہے تھے۔ لیکن طالبان کے مطابق یہ تصویر بھی دو دہائی قبل اتاری گئی تھی۔ اس تصویر میں وہ گہری نظر، بھورے بالوں اور سفید پگڑی میں نظر آ رہے ہیں
مولوی سعید احمد نے کہا کہ سپریم لیڈر کی حالیہ موجودگی کی خبر نے ان کی موت کے بارے میں افواہوں اور پروپیگنڈے کو ختم کر دیا
دوسری جانب تیرہ سالہ محمد موسیٰ نے کہا کہ مدرسے آمد پر جب ان کو دور سے دیکھا تو وہ بالکل ویسے ہی لگ رہے تھے، جیسا کہ مشہور تصویر میں نظر آتے ہیں. ہم انہیں اشکبار آنکھوں سے دیکھ رہے تھے
معزول کی گئی پچھلی افغان حکومت کے حکام اور بہت سے مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اخوندزادہ برسوں پہلے انتقال کر گئے تھے اور مدرسے کا یہ دورہ صرف ایک دکھاوا تھا
اس طرح کے شکوک کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے۔ طالبان، اپنی تحریک کے بانی ملا عمر کی 2013ع میں موت کے دو سال تک ان کے زندہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے تھے
سابق حکومت کے ایک سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اخوندزادہ طویل عرصہ پہلے فوت ہو چکے ہیں اور کابل پر قبضے سے پہلے ان کا کوئی کردار نہیں تھا
دیگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تقریباً تین سال پہلے وہ کوئٹہ، پاکستان میں ایک خودکش حملے میں اپنے بھائی کے ساتھ مارے گئے تھے
متعدد غیر ملکی انٹلیجنس ایجنسیاں بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اس تھیوری پر یقین کرتی ہیں
ایک اور سیکورٹی افسر نے اے ایف پی سے کہا کہ کوئی بھی شخص آخونزادہ کی موت کی نہ تو تصدیق کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کی مبینہ موت کی تردید
جب کہ پینٹاگون اور سی آئی اے نے اخوندزادہ کی موت کی افواہوں پر تبصرہ کرنے کے لیے اے ایف پی کی درخواست کا جواب نہیں دیا
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہیبت اللہ آخونزادہ کی اگر موت ہو بھی چکی ہے تب بھی اس خبر کو اس لیے چھپا کر رکھا گیا ہے کیونکہ ان کی موت کی خبر سے طالبان میں پھوٹ پڑسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، "اگر یہ اعلان کردیا گیا کہ آخونزادہ اب نہیں رہے اور کسی نئے امیر کی تلاش ہو رہی ہے تو طالبان میں پھوٹ پڑسکتی ہے اور داعش (خراسان) اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے
پاکستان میں مقیم طالبان کے ایک رکن نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آخونزادہ پورے گروپ کو متحد رکھنے کے معاملے میں طالبان کے لیے مرکز کشش ہیں
طالبان کے نزدیک وہ اب بھی زندہ اور ٹھیک ہیں۔ ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ امیر منظرعام پر آئیں۔ وہ منظم انداز میں رہنمائی کر رہے ہیں
اخوندزادہ کون ہیں؟
قندھار کے قریب ایک وسیع بنجر ضلع پنجوائی میں، ہر کوئی اخوندزادوں کے بارے میں جانتا ہے، جو قابل احترام مذہبی ماہرین کی ایک نسل میں سے ہیں۔
طالبان کے امیر کی پیدائش اسپروان گاؤں میں ہوئی۔
ایک نوجوان جنگجو اور سپریم لیڈر کے سابق طالب علم نعمت اللہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’سوویت حملے (1979) کے وقت گاؤں میں لڑائی شروع ہوئی اور ہبت اللہ پاکستان چلے گئے۔‘
پاکستان میں اس دوران آمد پر اخوندزادہ ایک قابل احترام عالم بن گئے اور انہوں نے ’شیخ الحدیث‘ کا خطاب حاصل کیا، جو کہ پیغمبر اسلام کے اقوال کے سب سے نامور علما کے لیے مخصوص ہے
1990ع کی دہائی کے اوائل میں، جب سوویت قبضے کے نتیجے میں جہادی روش زور پکڑ رہی تھی، اخوندزادہ، جو 30 کے لگ بھگ تھے، گاؤں واپس آگئے
ان کی سوانح عمری سے اقتباس کے مطابق 1996 میں طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کا عروج دیکھنے کے لائق تھا
مقامی مدرسہ چلانے کے بعد، وہ قندھار کی صوبائی عدالت میں جج بنے، پھر 2000 تک مشرقی افغانستان میں ننگرہار میں فوجی عدالت کے سربراہ رہے اور 2001 تک یہ فریضہ انجام دیتے رہے
اس کے بعد اخوندزادہ کوئٹہ پاکستان آگئے۔ اسلامی قانون پر ان کی مہارت نے انہیں طالبان کے انصاف کے نظام کا سربراہ اور کوئٹہ سے گریجویشن کرنے والے جنگجوؤں کی ایک پوری نسل کا مشہور ٹرینر بنا دیا
طالبان کے پاکستان میں موجود ایک رکن نے بتایا کہ وہ اخوندزادہ سے تین بار مل چکے ہیں اور ان کے سپریم لیڈر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرتے
ان کے بقول، وہ لینڈ لائنز پر فون کال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور خطوط کے ذریعے طالبان کے عہدیداروں سے رابطہ کرتے ہیں، جو اب حکومت میں شامل ہیں اور جن کے ساتھ ان کا مضبوط تعلق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اخوندزادہ نے پرانی حکومت کے خلاف حتمی کارروائی سے متعلق احکامات دیے اور قندھار سے ہونے والی کارروائیوں پر نظر رکھی ہوئی تھی.