قیدخانہ (مختصر افسانہ)

سعیدبلوچ

جیل پولیس کے سپاہی نے ہتھکڑی کھول کر مجھے بیرک کے دس مربع فٹ کے چھوٹے سے کمرے کے اندر دھکیلا اور تالا لگا کر لوٹ گیا.

”کس جرم میں سسرال آئے ہو پتر“ کمرے میں پہلے سے موجود چار قیدیوں میں سے بے ہنگم سی داڑھی مونچھوں والے ایک ادھیڑ عمر قیدی نے مسکرا کر پوچھا

”قتل کے جھوٹے الزام میں“
بیرک کے در و دیوار کو تکتے میں نے سر جھکا کر کہا

”اوئے چلو نکلو اور تندور پہ پہنچو“ کچھ دیر بعد سپاہی دوبارہ آیا اور مجھے یہ کہتے ہوئے تالا کھول کے لوٹ گیا

”اوہو مال پانی بنانے کے چکر میں تجھے آگ والے کام پہ لگا رہے ہیں“ ادھیڑ عمر قیدی نے کانسٹیبل کی بات سن کر کہا

”کک.. کیا مطلب.. مجھے کیوں لگا رہے ہیں تندور پہ“ میں نے گھبراتے ہوئے پوچھا

”پتر! جیل میں قیدیوں کا کھانا قیدی ہی بناتے ہیں اور جو انہیں مال پانی دے تو آسان کام، ورنہ سب سے مشکل کام اسی کے ذمہ لگا دیتے ہیں.“ ادھیڑ عمر قیدی نے وضاحت کی

”اب میں کیا کروں“ میں نے ڈرتے ہوئے کہا

”پتر میرا کہنا مان! ان حرام خوروں کے منہ پر چار ہزار مہینے کا مار اور بی کلاس میں شامل ہو کر آسان کام پہ ڈیوٹی لگوا لے. میں بھی پیسے دے رہا ہوں اس لیے سکون سے بیٹھا ہوں“ ادھیڑ عمر قیدی نے حل بتاتے ہوئے کہا

”چچ.. چلو گھر والے آئیں گے، تو ان سے بات کروں گا“ میں نے سہم کر حامی بھر لی

”اور سن تیرا مہینے کا دو تین ہزار کا اور بھی خرچہ ہو جائے گا“ ادھیڑ عمر قیدی نے مزید وضاحت کی

”اب وہ کس چیز کے لئے؟“ میں نے حیرانی سے پوچھا

”پتر بات یہ ہے کہ ہوتا تو سب سرکاری مال ہے، لیکن پھر بھی یہاں ہر کام کے پیسے وصول کیے جاتے ہیں. کمرے کا بلب جل جائے تو تبدیل کرنے کے دو سو روپے مانگ لیتے ہیں. پانی کی ٹونٹی خراب ہو جائے تو تبدیلی کے پانچ سو روپے لیتے ہیں. ہر کام کا ٹھیکہ الگ ہے.. بجلی کا، سینٹری کا، تندورچی کا، ملاقات کا اور گھر سے کھانا منگوانے سے لے کر قیدیوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے کے رفع دفع تک کے الگ الگ ٹھیکے ہیں. صرف تندورچی کا ٹھیکہ چار لاکھ روپے مہینے کا ہے اور قیدیوں کے لڑائی جھگڑے کا ٹھیکہ تو دس لاکھ روپے ہے..
انتظامیہ جگھڑنے والے دونوں فریقوں سے تیس سے چالیس ہزار لے کر چھوڑتی ہے“ ادھیڑ عمر قیدی نے انکشافات کا سیلاب بہاتے ہوئے ہر بات تفصیل سے بتا دی.

”لیکن یہ ٹھیکہ دیتا کون ہے اور لیتا کون ہے“ میں نے مارے تجسس کے دریافت کیا

”پتر ! یہاں اے ایس آئی تک کے رینک کے بندے کو ٹھیکہ مل جاتا ہے اور انسپکٹر سے لے کر اوپر کے سب رینک کے افسروں کو حصہ جاتا ہے، لیکن ٹھیکہ لینے والا دوگنا کما لیتا ہے اور یہاں ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ ٹھیکہ اسے ہی ملے“ ادھیڑ عمر قیدی نے حیران کن انکشاف کیا

”یہ تو سراسر ظلم ہے! سنا ہے جج بھی جیل میں دورہ کرتے ہیں. میں تو ان کے خلاف درخواست دے دوں گا“ میں نے غصے سے کھولتے ہوئے کہا

”ناں ناں پتر! ایسی غلطی مت کرنا.. جج تو آتے ہیں پندرہ بیس دن بعد اور تم نے یہاں رہنا ہے ہر وقت.. یہ جج کے سامنے تو تیرے سے معذرت کر لیں گے، لیکن بعد میں تجھے الٹے چکروں میں الجھا کر رکھ دیں گے. پیسوں کے لئے تجھے پٹوا بھی سکتے ہیں اور مروا بھی سکتے ہیں، کیونکہ تم مکمل طور پر ان کے رحم و کرم پر ہو“ ادھیڑ عمر قیدی نے اپنے سابقہ تجربے کی بنیاد پر راۓ دیتے ہوئے کہا

”میرے ساتھ تو جو کریں گے میں برداشت کر لوں گا لیکن باقیوں کی تو جان چھوٹ جائے گی ناں“ میں اب بھی شکایت لگانے پر مُصر تھا

”وہ سامنے کمرے والا بابو دیکھ رہے ہو، جو سر سے ہلکا ہلکا گنجا ہے.. یہ سولہ جماعتیں پاس ہے اور جب یہ آیا تھا، تو اس کے خیالات بھی ایسے ہی تھے.. اس نے دورہ پر آئے سیشن جج کو شکایت لگا دی تھی.. وقتی طور پر تو جیل انتظامیہ نے اس سے معذرت کر کے درخواست واپس اٹھوا لی، لیکن بعد میں جو اس کے ساتھ سلوک ہوا.. بس اللہ توبہ“ ادھیڑ عمر قیدی نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا

”کک.. کیا ہوا تھا اس کے ساتھ؟ پلیز آگے بتائیے ناں“ میں نے اسے مجبور کرتے ہوئے کہا

”ہونا کیا تھا.. ایک جھگڑالو قیدی کو اس کے کمرے میں بند کر دیا. اس نے انتظامیہ کی شہہ پر اس بابو کو کسی بات کا بہانہ بنا کر بری طرح مار مار کے بے ہوش کر دیا. پھر انکوائری میں بھی اسی کا قصور ثابت کر کے حشرات سے بھری کال کوٹھڑی میں بند کر دیا. تقریباً ڈیڑھ مہینے کے بعد انتظامیہ نے منت سماجت کرا کے اور پچاس ہزار روپے لے کر واپس بیرک میں ڈالا. لیکن پھر بھی مسلسل دس مہینے اسے ‘سی کلاس’ میں ڈال کر سخت سے سخت جگہ پر ڈیوٹی لگائے رکھی. اب جا کر اس کی جان چھوٹی ہے“ ادھیڑ عمر قیدی نے رونگٹے کھڑے کر دینے والے انکشافات کا انبار لگا دیا

اپنا انجام سوچ کر میرے جسم میں خوف کی لہر سی پیدا ہوئی اور میں اندر سے کانپ گیا. پھر حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے ہتھیار ڈال کر ہار مان لی اور پیسے دے کر بی کلاس لگوانے کا مصمم ارادہ کرتے ہوئے تندور کا رخ کیا، جہاں قیدیوں کے لئے روٹیاں پکائی جا رہی تھیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close