پاکستان کی تاریخ کے تہلکہ خیز بیان حلفی کون سے تھے؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – گزشتہ روز پی ٹی وی ہیڈکوارٹرز میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس منعقد ہوا

اجلاس میں تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی نواز اعوان کا کہنا تھا کہ جج شمیم کے بیان حلفی کےعلاوہ مہران بینک، جج ارشد ملک اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وعدہ معاف گواہ کے بیان کا جائزہ بھی لینا چاہیے

انہوں نے کہا کہ جتنے بیان حلفی آج تک آئے، ان سب کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ محمد زبیر کی وڈیو کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔‘

سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے خلاف سابق جج رانا شمیم کے بیان حلفی پر بات چیت کرتے ہوئے علی نواز اعوان نے کہا کہ ’ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا یہ پہلا واقعہ ہے؟ کیا پہلی مرتبہ کسی جج کا بیان حلفی آیا ہے؟ ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ بیان حلفی کہاں سے آ رہے ہیں؟ پاکستان کی تاریخ بھی کھنگالنا ہو گی کہ بیان حلفی کیسے آ رہے ہیں۔‘

اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مشہور بیان حلفی پر نظر دوڑائی جائے، تو وہ یہ ہیں

اصغر خان کیس کے بیان حلفی

اصغر خان کیس کے دوران مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب نے سپریم کورٹ میں اپنے بیان حلفی میں بتایا تھا کہ کس طرح 90 کے عام انتخابات میں اُن سے عسکری و سیاسی عہدے داروں نے رابطہ کیا اور انتخابی مہم کے لیے کروڑوں روپے سیاست دانوں میں تقسیم کیے گئے

اسی اصغر خان کیس میں سنہ 2012 میں سابق سربراہ انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اسد درانی نے اپنا بیان حلفی سپریم کورٹ جمع کروایا تھا جس میں اُن کا موقف تھا کہ اُس وقت (90 کے عام انتخابات کے وقت) آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کی ہدایت پر سیاست دانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کیے تھے

جبکہ اسی کیس میں سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کا بیان حلفی بھی جمع ہوا جس میں انہوں نے رقوم کی تقسیم کی تمام تر ذمہ داری اُس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی پرڈال دی تھی۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس کا بیان حلفی

ریکارڈ کے مطابق حدیبیہ پیپر ملز کیس میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی ایک بیان حلفی جمع کروایا تھا جس سے بعد ازاں اسحاق ڈار انکاری ہو گئے تھے۔

یہ بیان حلفی اپریل 2000 میں جمع کروایا گیا تھا۔ اُس بیان حلفی میں اسحاق ڈار نے نیب کو شریف فیملی کی جانب سے رقم بیرون ملک منتقل کرنے سے متعلق تمام تفصیل بتائی تھی کہ کس طرح اسحاق ڈار نے رقم منتقل کرنے کے لیے شریف فیملی کو سہولت فراہم کی تھی۔

ارشد ملک وڈیو سکینڈل بیان حلفی

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہو نے والی معلومات کے مطابق سابق جج ارشد ملک جو وڈیو اسکینڈل میں ملوث تھے، اُن کا بھی ایک بیان حلفی تھا، جو جولائی 2019ع میں جمع ہوا تھا

اپنے بیان حلفی میں انہوں نے کہا تھا کہ ’کچھ افراد کی جانب سے انہیں 16 سال پرانی وڈیو دکھا کر دھمکی دی گئی اور تعاون کرنے کا کہا گیا۔ شریف فیملی نے رائیونڈ بلایا نواز شریف نے کہا کہ جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں تعاون کریں آپ کو مالا مال کر دیں گے۔‘

نواز شریف کا بیان حلفی

نومبر 2019 میں ایک بیان حلفی سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے بھی لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا۔ مذکورہ سماعت اُن کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے متعلق تھی۔ اس بیان حلفی میں کہا گیا تھا کہ ’نوازشریف پاکستان کے ڈاکٹرز کی تجویز پر بیرون ملک علاج کے لیے جارہے ہیں۔ میاں نواز شریف صحتیاب ہونے اور ڈاکٹرز کی اجازت ملنے کے بعد وطن واپس آجائیں گے اور تمام مقدمات کا سامنا کریں گے۔‘

نواز لیگ کے رہنما میاں جاوید لطیف کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی اطلاعات و نشریات کی کمیٹی کے اجلاس میں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ رانا شمیم اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیک کے معاملے پر کمیٹی نے تمام متعلقہ فریقوں کو طلب کیا تھا، کیا اُن کو اطلاع دی گئی کہ انہوں نے کمیٹی میں پیش ہونا ہے؟ کمیٹی کو آکر بتانا چاہیے کہ بیان حلفی اصلی ہے یا جعلی، کمیٹی کا مقصد ہے کہ ادارے بے توقیر نہ ہوں

علی نواز اعوان نے کمیٹی میں کہا کہ ریٹائرڈ جج رانا شمیم ایک بیان حلفی دیتے ہیں اور پورا ملک اس پہ بات کرتا ہے، لیکن جج صاحب عدالت میں جا کر کہتے ہیں کہ اُن کا بیان حلفی تو لاکر میں تھا، باہر کیسے آیا، تو اس پہ پیمرا پر بھی سوال اُٹھتا ہے

علی نواز اعوان نے مریم نواز کی آڈیو لیک کا نام لیے بغیر حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ ایسی آڈیو بھی لیک ہوئی، جن کو مانا گیا کہ یہ ان کی آواز ہے اُس پہ کوئی نوٹس کیوں نہیں ہوا؟

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایک سوالنامہ تشکیل دینا چاہیے اور جس جس کی آڈیو لیک ہوئی ہے، سب کو وہ بھجوا کر جواب طلب کرنے چاہیے، کیونکہ کمیٹی کے لیے بھی یہ اچھا نہیں کہ کمیٹی کسی کو بلائے اور کوئی نہ آئے

نفیسہ شاہ نے سوال اُٹھایا کہ کیا یہ کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ آڈیو وڈیو لیکس پہ تحقیقات کرے؟

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ علی نواز اعوان نے مہران بینک کے حوالے سے جو بیان حلفی کا ذکر کیا ہے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آئی جے آئی کو فنڈز کس نے دیے؟ آئی جے آئی بنوائی کس نے؟ جس نے بنوائی انہوں نے کس حیثیت سے فنڈ دیے اور آئی جے آئی بنوائی؟

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ٹیکس کے پیسے کیسے اور کہاں استعمال ہو رہے ہیں، یہ بھی ایک سوال ہے۔ ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ حق دیا جائے کہ ہم اُن سے یہ سوال کرسکیں

جاوید لطیف نے مزید کہا کہ اگر شوکت صدیقی کی بار والی تقریر پرنوٹس لے کر ایکشن لیا جاتا ، تو آج یہ نوبت ہی نہ آتی

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایک فیصلہ دیا، اگر اُس پر عمل ہوتا تو سیالکوٹ والاسانحہ پیش نہ آتا

میاں جاوید لطیف نے کہا کہ اگر رانا شمیم اور ثاقب نثار کا ایشو بنتا ہے اور عدلیہ نوٹس لیتی ہے توخبر کی تصدیق نہ ہونے پر میڈیا کےخلاف ایکشن لینا چاہیے لیکن اگر خبر کی تصدیق ہو جاتی ہے تو بات کرنے والے کے خلاف ایکشن لیا جائے

علی نواز اعوان نے کہا کہ ہمیں سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا۔ اگر ان ججوں کی بات ہو رہی ہے تو پھر جسٹس سجاد علی شاہ کی بھی بات کرنی چاہیے۔ اُن کے ماتحت کے ذریعے نیا بینچ بنا کر اُن کے خلاف فیصلہ کروایا گیا۔ انہیں عہدے سے ہٹایا گیا۔ جس نے یہ سب کروایا اُن کو نوازا گیا، صدر پاکستان اور گورنر سندھ بنوایا گیا

اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی بیس سال بعد اعتراف کیا گیا۔ نواز شریف کو ہائی جیک کرکے سزا دلواتے ہیں، پھر دس سال بعد اعتراف کرتے ہیں، تو یہ باتیں بھی سوالنامے میں لکھنی چاہییں

اکرم چیمہ نے کمیٹی نے کہا کہ میں 27 نومبر کو ڈی چوک پر تھا، میں نے کشمیر واک میں شرکت کرنی تھی، اس لیے سوا نو بجے پارلیمنٹ کے سامنے پہنچا تو ایک دم ایک شخص میری گاڑی کی کھڑی پہ آ کر پاگلوں کی طرح چیختا ہے اور کہتا ہے کہ میری گاڑی کی نمبر پلیٹ جعلی ہے اور کہا تم شکل سے دہشتگرد نظر آتے ہو، اس کے بعد اس شخص نے میری بغیر اجازت تصاویر بنائی۔ اسمبلی گیٹ پر وہ شخص مجھے گرفتار کرواتا ہے اور اس شخص کا نام ہے قاضی فائز عیسٰی۔ ایک رکن اسمبلی کی بے عزتی ہوئی لیکن کوئی نہیں بولا، لیکن اگر میں اس دن جج صاحب کو جواب دے دیتا، ہاتھا پائی ہو جاتی تو سب میرے پیچھے پڑ جاتے، کہ معزز جج کی شان میں گستاخی ہو گئی

انہوں نے کہا کہ میرے معاملے پر تو کسی نے نوٹس نہیں لیا میں شرمندگی سے اسمبلی نہیں جا رہا

اس معاملے پر علی اعوان نے کہا کہ رکن اسمبلی کو پولیس نے اسپیکر اسمبلی کی اجازت کے بغیر گرفتار کیا؟ اس معاملے پر آئی جی اسلام آباد کو جواب دینا چاہیے

چیئرمین کمیٹی نے اسلام آباد پولیس سے اکرم چیمہ کی گرفتاری اور بغیر ایف آئی آر کے حراست میں لیے جانے سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں

اسلام آباد میں صحافیوں پر حملوں اور اغوا کے حوالے سے جب کمیٹی نے اسلام آباد پولیس سے اُن کو تخفظ دینے کا کہا تو اسلام آباد پولیس نے کمیٹی میں موقف دیا کہ جن صحافیوں کو خطرات ہیں اگر پے منٹ دیں توانہیں گارڈ مہیا کر سکتے ہیں

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور سابق جج رانا شمیم کے کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہونے پر کمیٹی نے متفقہ طور پہ طے کیا کہ سابق جج صاحبان کو آئندہ بریفنگ پر لازمی پیش ہو کر وضاحت دینا ہو گی

چیئرمین کمیٹی نے کہا پارلیمنٹ کی کمیٹی سپریم ہے۔ اس کے سمن کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے

اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے اہم قومی معاملات پر دیے گئے بیاں حلفی کی تحقیقات کا جائزہ لینے کے لیے سب کمیٹی تشکیل دے دی

کمیٹی آئی جے آئی کی تشکیل، ذوالفقار علی بھٹو کے قتل پر ججز پر دباؤ اور جج رانا شمیم کے بیان حلفی سمیت دیگر واقعات کا جائزہ لے گی۔ چار رکنی کمیٹی سوال نامہ بھی تشکیل دے گی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close