اسلام آباد – پاکستان اتوار کو اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے ایک غیر معمولی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ اس اجلاس کا مقصد افغانستان کے لیے امداد جمع کرنا ہے تاکہ وہاں انسانی بحران کو روکا جا سکے. اس کا افتتاحی اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہوا
اسلامی تعاون کی ستاون رکنی تنظیم (او آئی سی) کے کئی وزرائے خارجہ نے اتوار کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی، تاکہ افغانستان کی مدد کرنے کے طریقے تلاش کیے جا سکیں
ستاون رکنی اسلامی تنظیم کے وزرائے خارجہ کی یہ کانفرنس طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے بڑا بین الاقوامی اجتماع ہے۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ، امریکا، یورپی یونین، جرمنی، اٹلی اور روس کے خصوصی نمائندے بھی شریک ہو رہے ہیں۔ امریکا نے افغان سینٹرل بینک کے تقریبا ساڑھے نو بلین ڈالر کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں
تاہم پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ او آئی سی کی میٹنگ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ طالبان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے
افغانستان کی تشویش ناک معاشی صورتِ حال پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس اسلام آباد میں ہوا، جس کے افتتاحی سیشن میں وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر شرکا موجود تھے
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی صورتحال کا سامنا نہیں، وہاں سالہا سال کرپٹ حکومتیں رہیں، افغانستان کےحالات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا، دنیا نے اقدامات نہ کیے، تو یہ انسانوں کا پیدا کردہ سب سے بڑا انسانی بحران ہوگا
وزیر اعظم عمران خان
او آئی سی وزرائے خارجہ غیر معمولی اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان کی آبادی غربت کی لکیر سےنیچے آرہی ہے، المیہ یہ ہے کہ اکتالیس سال پہلے پاکستان میں افغانستان کے لئے کانفرنس ہوئی تھی، افغانستان میں عدم استحکام سے مہاجرین کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان کا 75 فیصد بجٹ غیرملکی امداد پر رہا، اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری مائیکل گرفٹ نے جو اعداد و شمار دیے وہ حیران کن ہیں، یہ مسئلہ افغان عوام کا ہے، ہم پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں
انہوں نے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں عدم استحکام سے ایسے عناصر مضبوط ہونگے، میری طالبان کے وزیر خارجہ سے ایک ملاقات ہوئی، وہ شرائط پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں، افغانستان کے لیے بیرونی امداد بند ہوچکی ہے
عمران خان کا کہنا تھا کہ افغان جنگ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا، خواتین اور انسانی حقوق کے بارے میں ہرمعاشرے کے اپنے خیال ہیں. ہم نےافغان سرحد کے ساتھ اپنے علاقوں میں لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے لئے اعزازیہ دیا، وہاں داعش سے خطرہ ہے، ہمیں بھی خطرہ ہے
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اَسی ہزار جانوں کی قربانی دی، ہم نے تیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کیا، اب بھی پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین بس رہے ہیں، یورپ مہاجرین کی حساسیت کو سمجھ سکتا ہے، کشمیر اور فلسطین کے عوام بھی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی مدد کرنا ہماری مذہبی ذمےداری بھی ہے، دنیا میں اسلامو فوبیا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے، اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے او آئی سی کردار ادا کرے، فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی اور اسلام کو جوڑا گیا اور ریڈیکل اسلام کی ٹرم بنائی گئی، اس سب کے نتیجے میں اسلامو فوبیا پیدا ہوا، ہم نے پاکستان میں رحمت للعالمین اتھارٹی بنائی ہے، اس کا ایک مقصد ہے کہ اگرنبی کریم ﷺ کا کوئی خاکہ آئے تو اس کا سوچا سمجھا جواب دیا جائے، بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں بہت پروپیگنڈا کیا گیا
او آئی سی وزرائے خارجہ کا 17 ویں غیر معمولی اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان کے لوگوں کو خوراک کی کمی اور دواؤں کی قلت کا سامنا ہے، افغان معیشت کے لیے بینکنگ نظام فعال کرنا ہوگا
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغانستان کےحوالے سے ہماری آواز دنیا تک پہنچ گئی ہے، غیرمعمولی اجلاس کے لئے پاکستان پر او آئی سی کا اعتماد خوش آئند ہے
انہوں نے کہا کہ بھارت سے ادویات اور خوراک افغانستان پہنچانے میں سہولت دی، افغان عوام کے لیے یہ اجلاس ان کی بقا سے جڑا ہے، دنیا تمام چیزوں سے بالاتر ہو کر افغان مسئلے پر آگے بڑھے
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مزید کہاکہ افغانستان میں ہزاروں بچوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، افغان عوام کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم متحد اور ان کے ساتھ ہیں، چالیس سال قبل بھی پاکستان نے افغانستان کے لئے اسی طرز کا اجلاس بلایا تھا
شاہ محمود نے کہاکہ افغانستان کی نصب آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، پاکستان ایک بار پھرافغانستان میں انسانی بحران کے حل کے لئے کوشاں ہے، ورلڈ فوڈ پرگرام افغانستان میں خوراک کی کمی کے مسئلےکی نشاندہی کر چکا ہے
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بعد سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اجلاس سے خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان نے کم ترین وقت میں اجلاس کو ممکن بنایا، اجلاس کے انعقاد پر پاکستان سے اظہار تشکر کرتے ہیں
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں کشیدہ صورتحال کے خطے اور دنیا پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اجلاس میں شرکت پر سیکریٹری جنرل او آئی سی اور دیگر کے شکر گزار ہیں
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے عوام ہماری مدد کے منتظر ہیں، ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، افغانستان کے لئے اجلاس اور بہترین انتظامات پر پاکستان کو مبارکباد دیتے ہیں
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے معاملے کو انسانی بنیادوں پر دیکھنا ہوگا، وہاں مالی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے، افغانستان کو غذائی امداد اور مالیاتی اداروں کے استحکام کی ضرورت ہے، عالمی ادارے افغان عوام کی مدد کے لئے آگے بڑھیں
سیکریٹری جنرل او آئی سی ابراہیم حسین طحہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان عوام کے پرتپاک استقبال پر شکر گزار ہیں، پاکستان نےافغان بحران کے حل کے لیے عزم کا اظہار کیا، افغانستان کا امن خطے میں امن کےلیے ضروری ہے
ابراہیم حسین طحہ نے کہا کہ پاکستان نےخطے میں امن کے لیےکلیدی کردار ادا کیا، افغانستان کے عوام کو مدد کی اشد ضرورت ہے، افغانستان میں امن کےخواہاں ہیں، او آئی سی نے ہمیشہ افغانستان کے مسئلے پر مضبوط موقف اپنایا ہے
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تیزی سے بدلتی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، افغانستان کے مسئلے پر اجلاس بلانا خوش آئند ہے، افغانستان میں امن کے لئے علاقائی اور عالمی تعاون کی ضرورت ہے
او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس سے ترک وزیر خارجہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی کو دیگر عالمی اداروں سے مل کر افغان بحران پر قابو پانا چاہیے، افغانستان میں انسانی بحران مسلم ممالک کے لیے چیلنج ہے
ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کے بحران پر مثبت اقدامات کو سراہتے ہیں، افغانستان کی صورتحال کےاثرات دیگر ممالک پربھی مرتب ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ افغان عوام کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، افغانستان کے لاکھوں افراد کو بھوک کا سامنا ہے، ہم پاکستان اور سعودی عرب کو اجلاس کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں
اردن کے وزیرخارجہ نے او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس میں کہا کہ افغانستان اس وقت انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے، افغانستان کی عوام خوراک کی قلت کا شکار ہیں ان کی سلامتی کے لئے کام کرنا ہوگا
وزیر خارجہ اردن نے کہا کہافغانستان میں انسانی بحران مسلم ممالک کے لئے چیلنج ہے، اردن افغانستان کو انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لئے ہرممکن کوشش کرےگا، افغانستان کے لئے درست فیصلے کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے
چیئرمین اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک (آئی ڈی بی ) سلیمان الجاسم نے او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیرمعمولی اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں انسانی امداد کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں کے لیے کام کرنا چاہیے،کوئی بھی تنہا افغانستان کے معاملے سے نمٹ نہیں سکتا
سلیمان الجاسم نے کہاکہ آئی ڈی بی علاقائی ممالک کو مختلف سہولیات فراہم کررہا ہے، افغانستان کو فوری طور پر خوراک، رقم کی فراہمی کی ضرورت ہے، بینک ٹرسٹی اور ایڈمنسٹریٹر کے طور پر افغانستان سے متعلق ٹرسٹ کو دیکھ سکتا ہے
چیئرمین اسلامی ترقیاتی بینک نے کہاکہ ہم افغانستان کے لئے فنڈ کے قیام کی تجویز کوخوش آمدید کہیں گے، ہمارے پاس ایسے فنڈز رکھنے کا تجربہ ہے، تعمیر نو کے لئے افغانستان کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے
آئی ڈی بی کے چیئرمین نے مزید کہاکہ افغانستان کی 70 فیصد سے زائد عوام دیہات میں رہتے ہیں، افغانستان میں کاشتکاری سے وابستہ افراد کی بھی مدد کرنی چاہیے
اجلاس میں اقوام متحدہ کے نمائندے نے اپنے خطاب میں کہا کہ 80 فیصد افغان عوام روزمرہ اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں، افغانستان کا بحران بہت بڑا ہے، وہاں بےروزگاری 29 فیصد تک بڑھ سکتی ہے
نمائندہ اقوام متحدہ نے کہا کہ افغانستان میں لاکھوں بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں، افغانستان میں 70 فیصد اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں، ملکی معیشت بحران اور کرنسی گراوٹ کا شکار ہے، بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پوری دنیا متاثر ہوگی
ان کا کہنا تھا کہ میرا خطاب یو این سیکرٹری جنرل کا خطاب ہے جو میں پڑھ کر سنا رہا ہوں، افغانستان ٹرسٹ فنڈ کو خوش آمدید کہتا ہوں، افغانستان کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں افغانستان کو صحت اور لائیولی ہڈ کے لیے مدد بھی دینا ہوگی۔ افغان عوام موسم سرما صرف مدد کے ساتھ نہیں گزار سکیں گے
نائیجر وزیر خارجہ اوصف محمد نے افریقن گروپ کی طرف سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں افغانستان کی اندرونی معاملات میں مداخلت کیے بغیر مدد کرنی چاہیے
اجلاس میں پاکستان نےاو آئی سی رکن ممالک کو افغان عوام کی مدد کے لئے 6 نکاتی حکمت عملی جاری کردی جو درج ذیل ہے
1- او آئی سی ممالک کو فوری طور پرافغان عوام کی مدد کرنا ہوگی، افغانستان میں تعلیم، صحت و تکنیکی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی
2- یو این اور او آئی سی کا گروپ بنا کر افغانستان کو جائز بینکنگ سہولیات تک رسائی میں مدد دی جائے
3- افغان عوام کوخوراک کی فراہمی و فوڈ سیکیورٹی کے لئے فوری اقدامات کیے جائیں
4- انسداد دہشتگردی و منشیات کے خاتمے کے لئے افغان اداروں کی استعداد کار بڑھائی جائے
5- افغانستان میں انسانی حقوق، خواتین و لڑکیوں کے حقوق کے افغان حکام کے ساتھ انگیج کیا جائے
6- افغانستان میں دہشتگردی کی روک تھام کے لئے افغان حکام سے مل کر کام کیا جائے
اجلاس میں ترکی، ایران، سیرالیون، گیبون، صومالیہ، گینیا بسا، ترکش ریپبلکن آف نارتھ قبرص، یو اے ای، تاجکستان، بنگلا دیش، اردن اور فلسطین کے وزرائےخارجہ اور سیکریٹری جنرل او آئی سی شریک ہیں
پاکستان کی دعوت پر بیس ممالک کے وزرائےخارجہ اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں، اجلاس میں دس نائب وزرائے خارجہ سمیت ستر وفود بھی شرکت کر رہے ہیں
دوسری جانب واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ او آئی سی ممالک افغانستان میں کافی کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ مسلم ممالک اپنے مذہبی اسکالرز کے ذریعے کام کریں اور طالبان کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہیں
مائیکل کوگل مین کے مطابق مغربی ممالک کے لیے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنا مشکل ہے اور ان کے لیے یاددہانی بھی ہے کہ وہ بیس سالہ جنگ میں بری طرح ناکام ہو گئے ہیں، ’’طالبان نے مغرب کو شکست دی، ان کی طاقتور افواج کو ہرایا اور آخرکار ان کی افراتفری میں ذلت آمیز طریقے سے روانگی ہوئی۔ طالبان کے ساتھ میز پر بیٹھنے سے اس شکست کو مزید قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔‘