لوئر دیر – خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر پولیس کا کہنا ہے کہ ایک سینیئر سول جج کے خلاف مبینہ ریپ کا مقدمہ عدالت نے بے بنیاد قرار دے کر خارج کردیا ہے جبکہ مذکورہ جج نے الزام لگانے والی خاتون کے خلاف ہتک عزت اور دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کروا دیا ہے
یاد رہے ریپ کے الزام کا کیس رواں سال 25 نومبر کو سامنے آیا تھا، جب ایک خاتون نے ضلع لوئر دیر کے سینیئر سول جج پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے بلامبٹ میں واقع اپنی سرکاری رہائش گاہ میں ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا
خاتون نے بلامبٹ پولیس اسٹیشن میں درج کروائے گئے مقدمے میں موقف اختیار کیا تھا کہ مذکورہ سینیئر سول جج نے مبینہ طور پر ان کی بہن کو نوکری کا جھانسہ دے کر پندرہ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا، جو انہیں ادا کردیے گئے تھے لیکن بعد میں جج نے بتایا کہ یہ نوکری نہیں مل سکتی لہٰذا وہ اپنے پیسے واپس لے سکتی ہیں
خاتون کے مطابق جب وہ پیسے لینے جج کے پاس گئیں، تو انہوں نے پیسے بھی نہیں دیے اور زیادتی کا نشانہ بھی بنایا
مقدمہ درج ہونے کے بعد یہ واقعہ مقامی اور قومی میڈیا پر چلا اور تحقیقات کے لیے ضلع لوئر کے پولیس سربراہ کے قیادت میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی
تفتیشی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ خاتون نے مقدمہ درج کرواتے وقت اپنا اصل نام ظاہر نہیں کیا تھا اور جھوٹ بولا کہ وہ میڈیکل کی طالبہ ہیں اور ان کا تعلق چترال سے ہے
تفتیشی رپورٹ کے مطابق خاتون کی میڈیکل رپورٹ کے لیے بھیجے گئے نمونوں میں ریپ کے شواہد نہیں ملے
رپورٹ کے مطابق یہ بھی انکشاف ہوا کہ رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی مذکورہ خاتون پر اس قسم کے جرائم میں ملوث ہونے کے مختلف مقدمات پنجاب پولیس نے بھی درج کر رکھے ہیں
تفتیشی ٹیم نے تجویز دی تھی کہ جج کے خلاف مقدمہ خارج کیا جائے، کیونکہ تفتیش کے دوران ریپ کے شواہد نہیں ملے
پولیس نے یہ تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کی اور رواں ماہ 18 تاریخ کو عدالت نے سول جج کے خلاف درج مقدمے کو خارج کرنے کا حکم دے دیا
بعدازاں سینیئر سول جج نے مذکورہ خاتون کے خلاف ہتک عزت اور جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے خلاف بلامبٹ تھانے میں ایف آئی آر درج کروا دی ہے
بلامبٹ تھانہ کے پولیس اہلکار اعجاز علی نے بتایا کہ خاتون کو آج کو عدالت میں پیش کیا جائے گا
اعجاز علی نے بتایا کہ یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 420، 419، 389، 500 اور 22 کے تحت درج کیا گیا، جو دھوکہ دہی اور کسی بھی شخص کو کسی غلط مقدمے میں پھنسانے کے حوالے سے ہیں
جج کی جانب سے درج کروائے گئے مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملزمہ نے انہیں ایک جھوٹے، من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی کیس میں پھنسایا اور بلیک میلنگ کے ذریعے پندرہ تولے سونا ہتھیانے چاہے
مقدمے کے مطابق ملزمہ اس سے پہلے بھی اسی طریقے سے درجنوں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز افسران سے لاکھوں روپے ہتھیا چکی ہے، جس کے مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہیں
مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ میرے خلاف درج مقدمے کی تفتیش کے لیے قائم تفتیشی ٹیم نے مجھے بے گناہ قرار دیا ہے اور مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں ملزمہ کے خلاف قانونی کارروائی کا حق رکھتا ہوں اور اسی کے تحت میں اب ملزمہ کے خلاف مقدمہ درج کر رہا ہوں
مقدمے کے مطابق ملزمہ نے جج سے پندرہ تولے سونا اور اس کے مساوی رقم بھتے کے طور پر دینے کا مطالبہ کیا تھا اور انکار پر ملزمہ نے درخواست گزار پر ریپ جیسا سنگین الزام لگایا اور جھوٹ کا سہارا لے کر مقدمہ درج کروایا
سول جج نے مقدمے میں مزید کہا ہے کہ ملزمہ کی جانب سے جھوٹ پر مبنی مقدمہ درج کرنے سے درخواست گزار، ان کے خاندان اور ضلعی عدالت کے جج صاحبان کی شہرت اور نام بری طرح پامال اور داغدار ہوا اور اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے
مقدمہ میں مدعی کا کہنا ہے ”یہی وجہ ہے کہ درخواست گزار عدالت سے استدعا کرتا ہے کہ اس جرم میں ملزمہ کے ساتھ دیگر نامعلوم ملزمان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے تاکہ معاشرے سے اس طرح کی کالی بھیڑوں اور بلیک میلروں کو سزا دلوائی جاسکے۔“
اس مقدمے کے حوالے سے لوئر دیر کے پولیس سربراہ (ڈی پی او) عرفان اللہ کا کہنا ہے کہ خاتون نے مقدمہ درج کرواتے وقت بتایا تھا کہ ان کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں اور اس وقت انہوں نے اپنا نام دعا بتایا تھا، جو بعد میں غلط ثابت ہوا
عرفان اللہ کے مطابق پولیس نے خاتون کو دارالامان سوات منتقل کردیا تھا، جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد پولیس نے سول جج کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی تجویز دی تھی، جو اب خارج کردیا گیا
یاد رہے کہ خاتون نے عدالت میں کہا تھا کہ وہ جج کے خلاف مقدمہ درج نہیں کروانا چاہتی تھیں، لیکن پولیس نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا
خاتون نے عدالت کے روبرو یہ بھی بتایا کہ وہ جج کے خلاف مقدمے کی پیروی نہیں کرنا چاہتیں اور نہ دارالامان میں رہنا چاہتی ہیں، جبکہ انہوں نے اپنے لیے وکیل رکھنے سے بھی انکار کیا تھا
تاہم تازہ صورتحال کے حوالے سے تاحال خاتون کا موقف سامنے نہیں آیا.