آج کل کچھ نرسری بان حضرات کاشتکاروں کو عُود کے درخت اُگا کر کروڑ پتی بننے کے طریقے سمجھا رہے ہیں۔ وہ بتا رہے ہیں کہ عود کے درخت، پاکستان میں کس طرح کامیابی سے اگائے جا سکتے ہیں۔ بقول اُن کے، کاشت کے تین سال بعد ہی عود کے درختوں کی چھال اور پتوں وغیرہ سے آمدن شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن اصل کمیٹی 6 سے 7 سال بعد نکلتی ہے جب عود کے ایک درخت سے اوسطاً ڈیڑھ کلو خوشبودار لکڑی حاصل ہوتی ہے۔ نرسری بانوں کے مطابق ایک کلو خوشبودار لکڑی کی قیمت کم از کم چالیس لاکھ روپے ہے۔ اس طرح وہ ڈیڑھ کلو لکڑی سے ساٹھ لاکھ روپے کی آمدن کا حساب بتاتے ہیں۔ ایک درخت سے ساٹھ لاکھ کی آمدن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دس درخت چھ سال بعد ہی آپ کو کروڑ پتی بنا دیں گے!
زیر نظر مضمون میں کاشتکاروں کو عود کے دس درختوں سے کروڑ پتی بننے کے دعوے کی حقیقت سے آگاہ کیا جا رہا ہے؟ واضح رہے کہ راقم نئے تجربات کے حق میں ہے اور اس سلسلے میں پرائیویٹ سطح پر ہونے والے تجربات کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ لیکن تجربات کرتے ہوئے حقیقت سے دور نکل جانا بھی کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ خاص کر ایسے تجربات، جن میں کاشتکار طبقے کے پیسے اور وقت کے ضیاع کا شدید اندیشہ موجود ہو۔ امید ہے کہ اس مضمون میں پیش کی جانے والی معلومات سب کے لئے یکساں مفید ہو گی۔
عود کے درختوں سے کتنے سال بعد عود حاصل کیا جا سکتا ہے؟
کم از کم 9 سال کی عمر میں عود کے درخت کو جراثیم لگائے جاتے ہیں۔ اور پھر مزید پندرہ ماہ کے بعد درخت کاٹا جا سکتا ہے۔ اس طرح بیج سے لے کر درخت کاٹنے تک کم از کم دس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ پیداوار کے لئے پندرہ سال کے پودے کو جراثیم لگانا اورمزید دو سال کے بعد درخت کاٹنا بہتر سمجھا جاتا ہے۔
عود کے درخت سے حاصل ہونے والی لکڑی کی پیداوار اور قیمت کیا ہو سکتی ہے؟
عود کے درخت کو اگر جراثیم نہ لگائے جائیں، تو پھر دیگر لکڑیوں کی طرح عود کی لکڑی بھی محض چولہے میں جلانے کے ہی کام آتی ہے۔ عود کی وہی لکڑی کارآمد ہے جس کی رنگت جراثیموں کے عمل سے سیاہ ہو جائے۔ رنگت جتنی زیادہ سیاہ ہوگی، لکڑی اتنی ہی معیاری سمجھی جائے گی۔ دس سال کے درخت کو اگر کاٹیں، تو اس سے درج ذیل لکڑی حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے:
واضح رہے کہ عود کے درختوں سے سادہ، جزوی جراثیمی یا مکمل جراثیمی لکڑی کی پیداوار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ اوپر درج کی گئی پیداوار اوسط پیداوار ہے، جو دس سال کے درخت سے حاصل ہو سکتی ہے۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ عود سے تین طرح کی لکڑی حاصل ہوتی ہے۔ ان تینوں کی قیمت الگ الگ ہوتی ہے۔
نمبر1۔ عود کے درخت سے حاصل ہونے والی سفید یا پیلے رنگ کی سادہ لکڑی چولہے وغیرہ میں جلانے کے کام آتی ہے اس لئے اس کا وہی ریٹ ہو گا جو مارکیٹ میں عام جلانے والی لکڑی کا ریٹ ہوتا ہے
نمبر 2۔ جزوی جراثیمی لکڑی کی قیمت کوالٹی کے حساب سے طے ہوتی ہے۔ عام طور پر اس کا ریٹ 700 روپے سے لے کر 800 روپے فی کلو تک ہو سکتا ہے۔ اس لکڑی کو جلانے سے خوشبو تو نہیں آتی البتہ اسے دستکاری کی اشیاء وغیرہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے؟
نمبر 3۔ مکمل جراثیمی لکڑی کی قیمت بھی کوالٹی کے حساب سے طے ہوتی ہے۔ اس کی قیمت 3 لاکھ روپے فی کلو سے لے کر 6 لاکھ روپے فی کلو تک ہو سکتی ہے
عود کے ایک درخت سے کتنی آمدن حاصل ہو سکتی ہے؟
دس سال میں تیار ہونے والے عود کے درخت سے اوسطا آدھا کلو مکمل جراثیمی لکڑی حاصل ہوتی ہے، جس کی قیمت تین لاکھ روپے سے چھ لاکھ روپے فی کلو گرام تک ہو سکتی ہے۔ اگر عود کی فی کلوگرام اوسط قیمت ساڑھے چار لاکھ روپے بھی لگائیں تو پھر بھی فی درخت سوا دو لاکھ روپے سے زائد آمدن نہیں بنتی۔ جزوی جراثیمی لکڑی اس کے علاوہ ہے۔ لہٰذا کل ملا کر ہم دس درختوں سے بائیس لاکھ روپے کے آس پاس آمدن حاصل کر سکیں گے
کیا پاکستان میں عود کا درخت کامیابی سے اگایا جا سکتا ہے؟
کروڑوں کی جمع تفریق سے پہلے تو یہ بات جاننا چاہئے کہ کیا عود کا پودا پاکستان کی آب و ہوا میں نشو و نما پا کر صحت مند تناور درخت بن سکتا ہے؟
عود کے اگاؤ اور بڑھوتری کے لئے 20 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان درجہ حرارت ، ہوا میں 80 فیصد سے زیادہ نمی اور 1500 ملی میٹر سالانہ بارش درکار ہوتی ہے۔ جبکہ پنجاب کے زیادہ تر علاقوں میں صفر سے 48 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت، ہوا میں 40 سے 60 فیصد نمی اور سالانہ 400 ملی میٹر تک بارش ہوتی ہے۔ اس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہماری آب و ہوا عود کے درخت کی نشوونما کے لئے موزوں نہیں ہے۔ لیکن پودے اور درخت جس قدر حساس ہوتے ہیں، بسا اوقات اتنے ہی زیادہ سخت جان بھی واقع ہوتے ہیں۔ اس لئے دو چار پودے لگا کر تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کیا عود کے درخت کی چھال بھی بکتی ہے؟
عود کے درخت کی چھال جراثیمی نہیں ہو سکتی کیونکہ جراثیم ہمیشہ سخت لکڑی میں ہی نشوونما پاتے ہیں۔ لہٰذا عود کے درخت کی چھال میں اور کیکر و شیشم وغیرہ کی چھال میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
کیا عود کے درخت کے پتے بھی بکتے ہیں؟
قدرت نے ہر درخت میں کوئی نہ کوئی طبی خصوصیات رکھی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر ارجن، نیم، کیکر، املتاس، سوہانجنا وغیرہ میں کئی ایک طبی خصوصیات پائی جاتی ہیں جنہیں اطباء مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح عود کے درخت کے پتے بھی طبی خصوصیات رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان پتوں سے کوئی خاطر خواہ آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
چالیس لاکھ روپے فی کلو بکنے والی عود کی لکڑی کونسی ہے؟
اس مضمون میں ہم جس عود کی بات کر رہے ہیں، وہ مصنوئی طور پر جراثیم یا کیمیکل لگا کر عود کے درخت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جبکہ جو عود ہزاروں سالوں سے استعمال ہو رہا ہے، وہ جنگلات میں پائے جانے والے ان درختوں سے حاصل کیا جاتا ہے، جنہیں قدرتی طور پر جراثیم لگتے ہیں اور بعد ازاں کئی کئی سال گزرنے کے بعد اس کی کوالٹی میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ قدرتی طور پر پایا جانے والا اس طرح کا عود انتہائی مہنگا بکتا ہے، جس کی قیمت چالیس لاکھ روپے فی کلو تک بھی جا سکتی ہے
دراز پر ساڑھے تین سو روپے فی گرام بکنے والی عود کی چھال کونسی ہے؟
دراز پر ساڑھے تین سو روپے فی گرام یعنی ساڑھے تین لاکھ روپے فی کلو بکنے والی چھال نما چیز عود کی چھال نہیں، بلکہ عود کی جراثیمی لکڑی ہے جو مصنوئی طور پر جراثیم لگا کر تیار کی گئی ہے اور قدرے ہلکے معیار کی ہے
یہ وہی لکڑی ہے جو ایک درخت سے تقریبا آدھا کلو حاصل ہوتی ہے۔
عود کے درخت سے جراثیمی لکڑی کیسے حاصل کی جاتی ہے؟
جب عود کا درخت کم از کم 9 سال کا ہو جاتا ہے تو درخت کے تنے میں ڈرل کی مدد سے سوراخ کئے جاتے ہیں۔ یہ سوراخ تقریباً دو دو انچ گہرے اور چھ چھ انچ کے فاصلے پر کئے جاتے ہیں۔ ان سوراخوں کو ایک خاص قسم کی پھپھوندی کے محلول سے بھر دیا جاتا ہے۔ یہ پھپھوندی یا جراثیم درخت کی لکڑی کو سیاہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہی سیاہ شدہ لکڑی جلنے پر دنیا کی بہترین خوشبو پیدا کرتی ہے، جسے عُود کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس پھپھوندی کو نشوونما پانے کے لئے 23 ڈگری سینٹی گریڈ سے 37 ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت چاہئے ہوتا ہے۔ اگر درجہ حرارت اس سے بڑھ جائے یا کم ہو جائے تو پھپھوندی کی نشوونما رک جاتی ہے اور سیاہ لکڑی وجود میں نہیں آتی۔ پنجاب کا درجہ حرارت 23 ڈگری سے بہت کم اور 37 ڈگری سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے یہاں اس پھپھوندی کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ البتہ کچھ دوسرے طریقے بھی ہیں جن میں پھپھوندی والا کام کیمیکل سے لے لیا جاتا ہے
پھپھوندی یا کیمیکل لگانے کے تقریبا پندرہ ماہ بعد درخت کاٹ لیا جاتا ہے۔ اور تنے کی تراش خراش کر کے سفید لکڑی میں سے سیاہ جراثیمی لکڑی کو الگ کر لیا جاتا ہے۔ ایک درخت سے تقریبا آدھا کلو جراثیمی عود نکالنے پر کاریگر کے ایک سے دو ماہ لگ جاتے ہیں۔ الگ کی گئی جراثیمی لکڑی کی کوالٹی دیکھنے کے بعد ہی اندازہ ہوتا کہ ایک درخت سے کتنی آمدن ہوگی۔
جراثیمی لکڑی کی کوالٹی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ درخت کی عمر کتنی تھی؟ جراثیم لگانے کے کتنے ماہ بعد درخت کو کاٹا گیا؟ اس دوران آب و ہوا کیسی رہی اور سب سے بڑھ کر کاشتکار کا نصیب کیسا تھا؟
بھارت، بنگلہ دیش اور ویت نام جیسے ملک جہاں عود کی نشوونما کے لئے آب و ہوا نہائیت موزوں ہے وہاں بھی کاشتکار مطلوبہ کوالٹی اور مقدار کا عود حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ عود کی کوالٹی اور پیداوار بڑھانے کے لئے اُن ملکوں میں تجربات جاری ہیں۔
مشورہ
مشورہ یہی ہے کہ اگر آپ شوق رکھتے ہیں تو دو چار درخت لگا لیں۔ اس سے تجربہ بھی ہو جائے گا اور شوق بھی پورا ہو جائے گا۔ باقی جہاں تک بات ہے چھ سال میں کروڑ پتی بننے کی، تو وہ جب بھارت، بنگلہ دیش اور ویت نام کے عود اگانے والے غریب کاشتکار کروڑ پتی بن جائیں گے، تب آپ کو بھی مالدار بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔
بشکریہ ایگری اخبار