تقسیمِ ہند اور پاکستان کے قیام کے بعد کرکٹ کا کھیل پنجاب اور کراچی کے علاقوں تک ہی محدود ہوکر رہ گیا۔ 50ء اور 60ء سے 70ء کی دہائی تک صرف پنجاب اور شہرِ کراچی سے تعلق رکھنے والے انٹرنیشنل کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بنتے رہے اور اس طرح یہ کھیل دیگر صوبوں کے کھلاڑیوں کو مواقع فراہم نہ کرسکا
مگر فرسودہ طور سے چلائے جانے والے اس نظام میں تبدیلی کی سخت ضرورت درپیش رہی تاکہ ملک کے چاروں صوبوں کی ٹیم میں نمائندگی ممکن ہوسکے
اس مشن کو سرانجام دینے والے شخص پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار تھے، جو نہ صرف اچھے کپتان بلکہ ایک دُور اندیش باصلاحیت شخصیت کے مالک بھی تھے۔ انہوں نے یہ اچھی طرح باور کرلیا کہ جب تک ملک کے ہر کونے سے کھلاڑیوں کی نمائندگی نہیں ہوگی تب تک پاکستان میں کرکٹ اور قومی ٹیم کو بھی فروغ نہیں مل سکتا
اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہوں نے مختلف بینکوں اور تجارتی اداروں کی نمائندہ ٹیموں کی تشکیل کا بیڑا اٹھالیا۔ اس اقدام سے نوجوان کھلاڑیوں کو ملازمت کے مواقع پیدا ہوئے اور کھیل میں بہتری لانے کا موقع بھی مل گیا
نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کے ہر علاقے سے کھلاڑی پاکستان کی ٹیم میں سلیکٹ ہونے لگے
سندھ، بلوچستان، سرحد یعنی موجودہ خیبرپختونخوا سے بھی پاکستان کے کرکٹرز ابھر کر سامنے آنے لگے۔ سندھ ایک پسماندہ علاقہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ تعصب کا شکار رہا، اور یہاں سے بہت ہی کم کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ کھیل سکے
کھیل کی مقبولیت اور کرکٹ میں بڑھتے ہوئے مواقع کا حصہ بننے کے لیے سندھ میں کھیل کو اہمیت دی جانے لگی اور اب اچانک صوبہ سندھ کے متعدد ابھرتے ہوئے کھلاڑی پاکستان کی ٹیم میں وقتاً فوقتاً نظر آنے لگے ہیں
ابھی جب چند ہفتے قبل پاکستان کے دورہ بنگلہ دیش میں لاڑکانہ سے آنے والے کھلاڑی شاہنواز دھانی کو تیسرے ٹی20 میں کھلایا گیا تو لوگوں نے یہ معلوم کرنا شروع کیا کہ سندھی بولنے والے کیا یہ پاکستان کے پہلے کھلاڑی ہیں؟ تو مجھے بھی خیال آیا کہ کیوں نہ میں کرکٹ کے شائقین اور سندھ سے تعلق رکھنے والوں کے لیے اس موضوع پر روشنی ڈالوں
تقسیمِ ہند سے پہلے سندھ میں کرکٹ یقیناً ایک مقبول کھیل تھا مگر اس کھیل کی زیادہ مقبولیت یو پی، مدراس اور مہاراشٹریہ میں تھی، لیکن اس کے باوجود 1920ء اور 1930ء کی دہائی میں آسٹریلیا کے ایم سی سی یعنی میلبرن کرکٹ کلب کی ٹیمیں سندھ میں کھیلتی رہیں۔ لیکن ان ٹیموں کے خلاف زیادہ تر پارسی اور عیسائی اور کچھ سندھ سے تعلق رکھنے والے دیگر زبان بولنے والے کھلاڑی کھیلتے رہے
اگر حالیہ سالوں کی بات کریں تو شرجیل خان، نعمان علی، محمد حسنین پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے انٹرنیشنل میچوں میں کھیل چکے ہیں اور کچھ سالوں پہلے انیل دلپت اور دانش کنیریا بھی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آچکے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی کھلاڑی سندھی بولنے والے گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ شرجیل خان سرائیکی، نعمان علی پنجابی اور محمد حسنین راجھستانی بولنے والے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ دلپت اور کنیریا گوکہ سندھ میں پیدا ہوئے لیکن ان کا تعلق گجراتی بولنے والے گھرانوں سے ہے
اس لیے جب زاہد محمود یا شاہنواز ڈاھانی نے قومی ٹیم کی نمائندگی کی تو یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید یہ کھلاڑی قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے پہلے سندھی بولنے والے کھلاڑی ہیں، حالانکہ یہ ٹھیک نہیں ہے
درحقیقت پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے سندھی بولنے والے قومی کھلاڑی عبدالقادر تھے۔ 1964ء میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی کے ٹیسٹ میں انہوں نے پہلی بار ٹیسٹ میں اوپننگ کرتے ہوئے 95 رنز بنائے مگر بدقسمتی سے وہ رن آؤٹ ہوگئے۔ ان کے اوپننگ پارٹنر خالد عباداللہ نے اس ٹیسٹ میں پہلی بار پاکستان کی طرف سے کھیلتے ہوئے اپنے پہلے ہی میچ میں سنچری بنائی اور قادر کے ساتھ پہلی وکٹ کی شراکت میں 249 رنز کا اضافہ کیا۔ عبدالقادر صرف 4 ٹیسٹ کھیلے اور بعدازاں نیشنل بینک آف پاکستان کے وائس پریزیڈنٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کے 2 اور بھائی عبدالرشید اور عبدالعزیز اگرچہ ٹیسٹ کرکٹ تو نہ کھیل سکے لیکن ایک بڑے عرصے تک فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے رہے۔
عبدالعزیز قائدِاعظم ٹرافی کے ایک میچ کے دوران آف اسپنر کی گیند دل پر لگنے سے انتقال کرگئے تھے۔ یہ وہ میچ تھا جس میں حنیف محمد نے ‘ڈان بریڈمن’ کے فرسٹ کلاس کرکٹ کا 452 رنز کا ریکارڈ توڑتے ہوئے 499 رنز بنائے اور وہ 500 رنز مکمل کرنے سے پہلے ہی رن آؤٹ ہوگئے تھے۔ 59ء-1958ء کے سیزن میں کراچی اور بہاولپور کے درمیان یہ میچ KPI گراؤنڈ کراچی میں کھیلا گیا تھا
یہ تینوں سندھی بولنے والے بھائی قادر، رشید اور عزیز دل کے مریض تھے اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جب بھارت نے اپنی کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ لارڈز کے میدان میں 1932ء میں انگلینڈ کے خلاف کھیلا تو ان کے اوپننگ بلے باز کراچی کے سندھی بولنے والے کھلاڑی جیومل ناؤمل تھے۔ انہوں نے بھارت کی طرف سے 3 ٹیسٹ کھیلے۔ پاکستان کے قیام کے بعد انہوں نے کراچی میں ہندو جیم خانہ ٹیم کی کپتانی سنبھالی اور 50ء اور 60ء کی دہائی میں وہ پاکستانی کھلاڑیوں کے کوچ بھی رہے اور امپائر بھی
70ء کی دہائی میں وہ بھارت ہجرت کرگئے اور وہیں بمبئی کے شہر میں وفات پائی۔ وہ میرے بھی کوچ رہے اور نہایت نفیس انسان تھے
صرف یہی نہیں بلکہ بھارت کے ایک کپتان گلاب رائے ملانی رامچند جو کراچی میں پیدا ہوئے اور پاکستان بننے کے بعد بمبئی چلے گئے تھے، انہوں نے 1952ء سے 1960ء تک بھارت کی طرف سے 33 ٹیسٹ کھیلے۔ انہوں نے ان برسوں میں 2 ٹیسٹ سنچریاں بنائیں اور 41 وکٹیں بھی لیں
اسی طرح ایک اور بھارت کے کھلاڑی Ranomal Hotchand Punjabi بھی کراچی کے سندھی بولنے والے کھلاڑی تھے، جو بھارتی ٹیم کی نمائندگی کے لیے 1955ء میں پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ انہوں نے بھارت کی طرف سے 5 ٹیسٹ کھیلے اور وہ 90 سال کی عمر میں وفات پاگئے
شاہنواز ڈاھانی سے پہلے عبدالقادر تو کھیلے ہی تھے لیکن قومی ٹیم سے جڑنے والے حالیہ کھلاڑیوں میں لیگ اسپنر زاہد محمود بھی ہیں، جن کا تعلق ضلع دادو سے ہے اور زیادہ تر کرکٹ وہ حیدرآباد میں کھیلے ہیں۔ شاہنواز ڈاھانی تو حالیہ دورے میں بنگلہ دیش میں کھیلے لیکن اسی سال ان سے پہلے زاہد محمود جنوبی افریقہ کے خلاف قومی ٹیم کی نمائندگی کرچکے ہیں۔
سندھ سے تعلق رکھنے والا کوئی ضروری نہیں کہ وہ سندھی بولنے والے گھرانے سے تعلق رکھتا ہو، لیکن یہ بہت ہی حوصلہ افزا تبدیلی ہے کہ اب سندھی بولنے والے کھلاڑی پاکستان کی طرف سے ٹی20، ایک روزہ اور ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں
میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان کے ڈومیسٹک ٹورنامنٹ قائدِاعظم ٹرافی کا جب سب سے پہلا میچ 1953ء میں بہاولپور کے خلاف کھیلا گیا تھا اس وقت سندھ کے کپتان شاہ مردان شاہ پیر آف پگاڑا تھے۔ انہیں کرکٹ کا بہت شوق تھا اور ان کی اپنی ٹیم بھی تھی جس میں حنیف محمد جیسے پاکستان کے نامور کھلاڑی بھی شامل رہے تھے بلکہ پیر صاحب ایک بار 1956ء میں حیدرآباد میں سندھ کی طرف سے ایم سی سی ‘اے’ ٹیم کے خلاف بھی کھیلنے گئے۔ وہ سندھی بولنے والے حُر قبیلے کے سردار اور پیر تھے جن کی کرکٹ کے کھیل میں بھی سرپرستی ہمیشہ شامل رہی
چند روز پہلے قائدِاعظم ٹرافی کے ایک میچ کے دوران شاہنواز ڈاھانی اور زاہد محمود سے ملاقات ہوئی۔ جب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ میں بھی سندھ اور حیدرآباد کی طرف سے کھیل چکا ہوں تو دونوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ شاہنواز ڈاھانی نے کہا کہ لوگ انہیں دھانی سمجھتے ہیں لیکن ان کے نام کا صحیح تلفظ ڈاہانی ہے اور انہیں بڑی خوشی ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے کھیل رہے ہیں۔ زاہد محمود کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی تھے۔
بشکریہ ڈان