اسلام آباد – اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کیس میں رانا شمیم و دیگر فریقین پر 7 جنوری کو فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کر دی
عدالت نے سابق جج کو گزشتہ تین سماعتوں میں اپنا اصل حلف نامہ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر چیف جسٹس (ر) رانا شمیم، پبلشر اور جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، سینئر صحافی انصارعباسی اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری حلف نامہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے، تو ان کے خلاف جرم عائد ہوگا
آج سماعت کے دوران رانا شمیم نے عدالت کی ہدایت پر اپنا اصل حلف نامہ کھول دیا
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ یہ دستاویز سابق جج کا حلف نامہ ہے اور کیا انہوں نے خود اس پر مہر لگائی ہے جس پر رانا شمیم نے اثبات میں جواب دیا
چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ رانا شمیم کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں صحافی انصار عباسی پر ’سارا الزام عائد کیا گیا‘ جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ حلف نامہ کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا
انہوں نے مزید ریماکس دیے کہ اسی طرح کے حالات میں برطانیہ میں عدالتوں نے صحافیوں سے کہا کہ وہ اپنے ذرائع کا انکشاف کریں لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ ایسا نہیں کرے گا
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ حلف نامہ میں ذکر کیے گئے جج اس وقت چھٹی پر تھے، بینچ کے دو ججوں پر شک کرنے کی بھی کوشش کی گئی
اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے طنزیہ طور پر کہا ”بیان حلفی کا فونٹ کیلیبری معلوم ہوتا ہے“
خیال رہے کہ کیلیبری فونٹ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی جانب سے پاناما پیپرز لیک کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو جمع کرائی گئی اہم دستاویزات میں استعمال کیا گیا تھا جو ‘جعلی’ ثابت ہوا تھا
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی سے استفسار کیا کہ عدالت کو صورتحال کو دیکھتے ہوئے الزامات طے کرنے کے لیے آگے کیوں نہیں جانا چاہیے
لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ وہ الزامات کے تعین پر بحث کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن رانا شمیم نے تسلیم کیا تھا کہ حلف نامہ ان کا ہے
کیس میں معاون کار پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے وائس چیئرمین امجد علی شاہ نے کہا کہ حلف نامے میں نامزد افراد اپنے جوابات جمع کرائیں تاکہ کیس کی کارروائی آگے بڑھ سکے
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دے کہ ’کیا پاکستان بار کونسل پہلی نظر میں کہہ رہی ہے کہ حلف نامے میں جو لکھا گیا ہے وہ درست ہے؟، حلف نامے میں جج نے جو ظاہر کیا وہ اس وقت چھٹی پر تھے، بینچ کے دو ججوں پر شک کرنے کی بھی کوشش کی گئی
انہوں نے مزید ریمارکس دے کہ پی بی سی کو اس معاملے پر ’انتہائی واضح مؤقف‘ اختیار کرنا ہوگا
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس معاملے کا سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے کوئی تعلق نہیں ہے، میاں ثاقب نثار کے ساتھ آپ جو بھی کرنا ہے، جا کر کریں
انہوں نے ریمارکس دے دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو مشکوک بنانے کی کوشش کی وجہ سے کارروائی شروع ہوئی تھی، یہ سوچ پیدا کی گئی جسے ہر کوئی سچ ماننے لگا
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ تاثر کہاں تھا جب دو ہفتے بعد اسی عدالت سے ضمانت منظور ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں متعلقہ دستاویز بہت اہم ہے
وکیل لطیف آفریدی نے رانا شمیم کا حوالہ دے کر کہا کہ حلف نامہ ایک ’نجی دستاویز‘ ہے اور یہ ان کی اہلیہ کی درخواست پر لکھا گیا ہے
سابق جج کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’رانا شمیم نے اپنا بیان حلفی پریس کو لیک نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو دیا، انہوں نے انصار عباسی سے یہ بھی پوچھا کہ انہیں یہ کہاں سے ملا ہے‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اب تک رانا شمیم کو بھی معلوم ہو گیا ہوگا کہ یہ معاملہ کتنا حساس ہے
لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ فردوس عاشق اعوان کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے مقدمات چلائے گئے، ان کیسز میں کیا ہوا؟ ایسے کیسز شروع ہوتے ہیں اور عدالت کو رحم کرنا پڑتا ہے
وکیل نے مزید کہا کہ انصار عباسی نے اپنا ذریعہ بتانے سے انکار کر دیا ہے، ’انصار عباسی کو بطور صحافی کچھ مراعات حاصل ہیں‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک مرتبہ پھر استفسار کیا کہ رانا شمیم نے اپنی رازداری کی خلاف ورزی پر کوئی کارروائی کی؟
جس پر وکیل نے جواب دیا کہ توہین عدالت کیس کی وجہ سے کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی
اس کے بعد چیف جسٹس نے لطیف آفریدی سے استفسار کیا کہ وہ بتائیں کہ حلف نامے کا فائدہ اٹھانے والے کون ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ وہ نہیں جانتے اور نہ ہی یہ ان کا کام ہے
لطیف آفریدی نے کہا کہ رانا شمیم کو حلف نامہ کے نتائج کے بارے میں نہیں معلوم تھا کہ جب یہ لکھا گیا تھا
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک مرتبہ پھر استفسار کیا کہ حلف نامے سے فائدہ اٹھانے والے کون تھے؟ جس پر لطیف آفریدی نے پھر جواب دیا کہ وہ جانتے ہیں اور عدالت سے درخواست کی کہ اس معاملے پر وقت ضائع نہ کیا جائے کیونکہ دیگر مقدمات زیر التوا ہیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کیا ہوگا اگر (زیر حراست بھارتی جاسوس) کلبھوشن یادیو نے حلف نامہ جمع کرایا کہ اس کا کیس اس عدالت کو نہیں سننا چاہیے، کیونکہ اس پر سمجھوتہ ہوا ہے، یہ ایک سنگین معاملہ ہے، اس حلف نامے کے نتائج کو سمجھیں‘۔
انہوں نے لطیف آفریدی سے کہا کہ وہ ثبوت پیش کریں کہ عدالت سے مبینہ طور پر سمجھوتہ کیسے کیا گیا
دوسری جانب دوران سماعت صحافی انصار عباسی نے بتایا کہ رپورٹ شائع ہونے سے ایک روز قبل ان کی رانا شمیم سے بات ہوئی تھی
انہوں نے کہا کہ رانا شمیم نے مجھے بھی میسج کیا کہ میں نے جو پڑھا وہ درست ہے
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ انصار عباسی جس اخبار میں کام کرتے ہیں کیا وہ حلف نامہ شائع کرے گا اگر کوئی آپ کا اخبار استعمال کرنا چاہتا ہے اور بھیجتا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی اس عدالت میں ہائی پروفائل کیس پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے تو کیا آپ وہ حلف نامہ شائع کریں گے؟
دی نیوز کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری نے جواب دیا کہ ہمیں مفاد عامہ کو دیکھنا ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں کہ دستاویز درست ہے یا نہیں
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے رانا شمیم اور دیگر پر فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کیا اور کہا کہ رانا شمیم بیان حلفی لکھنے والے ہیں ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے
انہوں نے کہا کہ رانا شمیم اس کیس میں توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، پچھلے تین دن سے ایک چیز آ رہی ہے کہ بیان حلفی کسی کے آفس میں رکارڈ کرایا گیا، لیکن حیرت انگیز طور پر اس بات کی کوئی تردید بھی نہیں آئی
جس پر لطیف آفریدی نے کہا کہ ٹی وی انٹرویو میں اس بات کی تردید کی جا چکی ہے
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حلف نامہ جن سے متعلق ہے، ان کی جانب سے کوئی تردید نہیں کی گئی، رانا شمیم مان لیں وہ استعمال ہوئے اور معافی مانگیں
انہوں نے مزید کہا کہ اگر رانا شمیم ایسا کریں تو میں بھی کہوں گا کارروائی نہ کریں، بصورت دیگر جلد فرد جرم کی تاریخ مقرر کی جائے
بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے رانا شمیم اور دیگر فریقین پر 7 جنوری کو فرد جرم عائد کرنےکی تاریخ مقرر کردی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل 20 دسمبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں چیف جج (ر) رانا شمیم نے عدالت کو بتایا تھا کہ انہوں نے اصل حلف نامہ جمع کرایا ہے، دی نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بیان حلفی کا ذکر کیے جانے کے ایک ماہ سے زائد عرصے بعد دستاویز جمع کرائی گئی
قبل از سماعت عدالت آمد کے موقع پر گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے بتایا کہ بیان حلفی رکارڈ کرایا تو اس وقت اکیلا تھا
صحافیوں نے سوال کیا کہ ’کہا جا رہا ہے کہ آپ نے نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر بیان حلفی بنایا، کیا اس بات میں کوئی صداقت ہے؟
جس پر انہوں نے کہا کہ ’یہ بات تو آپ انہی سے پوچھیں جو ایسا کہہ رہے ہیں‘
صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے اکیلے یہ حلف نامہ دیا تھا؟
رانا شمیم نے اثبات میں کہا کہ ’بالکل‘
خیال رہے کہ چند روز قبل انگریزی اخبار ’ایکسپریس ٹریبیون‘ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ رانا شمیم نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے خلاف دیے جانے والے بیان حلفی پر نواز شریف نے دفتر میں ان کی موجودگی میں دستخط کیے تھے
جس کےبعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے حلف نامے کے حوالے سے سامنے آنے والے انکشافات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان انکشافات نے ایک بار پھر ’شریف خاندان کو سیسیلین مافیا ثابت کر دیا ہے‘
فواد چوہدری کے اس بیان پر آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ رانا شمیم نے اس حلف نامے اور اس میں لکھے ہوئے کو مان لیا ہے، فواد چوہدری نے جو بیان دیا ہے اس پر عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار ہو جائیں
رانا شمیم کے وکیل نے کہا کہ اس ملک کا مسئلہ ہے کہ لوگ سچ نہیں بولتے، رانا صاحب سچ بولیں گے، سچ سے کیوں ہٹیں، فواد چوہدری نے کہا نوازشریف کی موجودگی میں دستخط کیے، وہ اپنے اس بیان پر عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار ہوجائیں
لطیف آفریدی نے کہا کہ کئی دفعہ اٹارنی جنرل متنازعہ بات کرتے ہیں جو نہیں کرنی چاہیے، اٹارنی جنرل کی پوزیشن کو بھی چیلنج کیا جائے گا
اس موقع پر ایک صحافی نے وکیل لطیف آفریدی سے سوال کیا کہ کیا ان الزامات پر معافی مانگیں گے، اس پر جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم معافی مانگیں گے یہ تو بعد کی بات ہے
صحافی نے وکیل کے ساتھ موجود رانا شمیم سے انصار عباسی سے متعلق سوال پوچھا تو وہ بولے میری ان سے بات نہیں ہوئی، پھر سوال کیا گیا کہ آپ کا حلف نامہ بھی آج متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی، کیا کہیں گے؟ جواب میں انہوں نے کہاکہ میرے وکیل اس کا جواب دیں گے
لطیف آفریدی ایڈوکیٹ نے کہاکہ انکوائری کی ضرورت ہے، یہ ہماری مرضی ہے کہ فرد جرم کا جواب دیں یا نہ دیں.