کراچی – عراق کے سابق امریکی سفیر رابرٹ فورڈ نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں عراق کے سابق صدر صدام حسین کے مقدمے اور انہیں پھانسی دیے جانے کے حوالے سے اظہارِ خیال کیا ہے
سابق امریکی سفیر رابرٹ فورڈ نے کہا ہے کہ صدام حسین پر جو کیس چلایا گیا، اس میں کافی جھول تھے اور متعدد اصولوں کی خلاف ورزیاں کی گئیں
بین الاقوامی خبررساں ادارے کے مطابق سابق امریکی سفیر نے روسی سرکاری نیوز ایجنسی اسپوتنک (Sputnik) کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدام حسین کا مقدمہ کئی پہلوؤں سے نامکمل تھا۔ کچھ دفاعی وکیل قتل کردیے گئے اور عدالت میں صدام حسین کے خلاف ثبوت فراہم کیے گئے تو دفاعی وکلاء کو اسے دیکھنے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہی وجہ تھی جب شواہد زبانی بتلائے گئے تو وکلاء ششدر و حیران تھے
رابرٹ نے مزید کہا ہاں یہ بات بھی صحیح ہے کہ ججز کے سامنے وہ دستاویزات بھی آئیں جن پر صدام حسین کےدستخط موجود تھے، جو انہیں براہ راست دُجیل شہر میں قتل و غارت کا مجرم ٹھہراتے تھے، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سماعت میں کئی اہم اصولوں کی دھجیاں اُڑائی گئیں
واضح رہے کہ آج سے ٹھیک پندرہ برس قبل یعنی 30 دسمبر 2006 کو عراق کے سابق صدر صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ یہ عید الاضحیٰ کی چاند رات بھی تھی
عراق کے سابق صدر، جن کی پھانسی پر امریکی فوجی بھی روئے
عراق کے سابق صدر صدام حسین کی سکیورٹی پر مامور بارہ امریکی فوجی ان کی زندگی کے بہترین دوست تو نہ تھے، تاہم وہ ان کے آخری ایام میں بہترین ساتھی رہے
یہ 551 ملٹری پولیس کمپنیوں سے منتخب ہوئے تھے اور انھیں ’سپر 12‘ کہا جاتا ہے
ان محافظوں میں سے ایک ول بارڈنورپر تھے، جنہوں نے ’دی پرزنر اِن ہز پیلس‘ کتاب لکھی، جس میں انہوں نے صدام حسین کی زندگی کے آخری دنوں کے بارے میں لکھا
بارڈنورپر کا کہنا ہے کہ جب صدام حسین کو پھانسی دینے والے اہلکاروں کے سپرد کیا جا رہا تھا تو ان کے تمام محافظوں کی آنکھوں میں آنسو تھے
اپنے ایک ساتھی ایڈم فوگرسن کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب کے مصنف ول بارڈنور نے لکھا کہ ہم نے صدام کو کبھی بھی نفسیاتی مریض اور قاتل کے طور پر نہیں دیکھا ہم اسے گرینڈ فادر کے طور پر دیکھتے تھے
لاکھوں عراقیوں کے قتل کے ذمہ دار امریکا نے عراق کے سابق صدر صدام کو اپنے 148 مخالفین کے قتل کے جرم میں سزا دی تھی
وہ کہتے ہیں کہ صدام اپنے آخری دنوں میں امریکی گلوکار میرے جے بلیزرڈ کے گانے سنا کرتے تھے۔ وہ اپنی قیمتی ایکسرسائز بائیک جسے وہ ‘پونی’ کہتے تھے، پر بھی بیٹھا کرتے تھے
وہ میٹھا کھانے کے بہت شوقین تھے اور ہر وقت انہیں مفرد کھانے کا دل کرتا تھا
بارڈنورپر کہتے ہیں کہ آخری ایام میں صدام کا دوسروں کے ساتھ رویہ بہت نرم تھا اور انہوں نے یہ تاثر نہیں چھوڑا کہ وہ بہت ظالم حکمران تھے
صدام کو سگار پینے کا بہت شوق تھا جسے وہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ انھیں سگار کا استعمال فیڈل کاسترو نے سکھایا تھا
انہیں باغبانی کا بھی بہت شوق تھا۔ وہ اپنے قید خانے کے گرد موجود بکھری ہوئی جھاڑیوں کو خوبصورت پھولوں کے طور پر لیتے تھے
صدام اپنی خوراک کے حوالے سے بھی بہت حساس تھے. ناشتے میں پہلے آملیٹ، پھر مفنز اور پھر تازہ پھل کھاتے تھے لیکن اگر آملیٹ کہیں سے بھی ٹوٹ جاتا تو وہ اسے کھانے سے انکار کر دیتے تھے
بارڈنورپر کہتے ہیں کہ صدام نے ایک بار اپنے بیٹے کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا
ایک دن صدام کے بیٹے ادے کی پارٹی میں بہت سے لوگ زخمی اور ہلاک ہو گئے۔ صدام نے غصے میں حکم دیا کہ ادے کی تمام گاڑیوں کو آگ لگا دی جائے
صدام کہتے تھے کہ انہوں نے بیٹے کی تمام قیمتی گاڑیوں جن میں فراری، پورشے بھی شامل تھیں کو جلائے جانے کے مناظر دیکھے
ایک بار ایک امریکی سپاہی جو کہ صدام کی حفاظت پر مامور تھے، نے انہیں اپنے بھائی کی موت کے بارے میں بتایا تو جواب میں صدام نے کہا کہ ‘تم مجھے آج سے اپنا بھائی سمجھو۔’
انہوں نے ایک دوسرے محافظ سے کہا کہ اگر مجھے میرے اپنے پیسے کو استعمال کرنے کی اجازت ملے، تو میں تمہارے بیٹے کی تعلیم کے اخراجات ادا کرنے کے لیے تیار ہوں
مصنف کا کہنا ہے کہ ایک شب ہم نے دیکھا کہ ایک بیس سالہ سپاہی ڈوسن اپنے سائز سے بڑا سوٹ پہن کر گھوم رہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس نے صدام حسین کی جانب سے تحفے میں دیا گیا سوٹ پہن رکھا تھا
بارڈنورپر لکھتے ہیں کہ بہت دن تک ہم ڈوسن کا مذاق اڑاتے رہے، لیکن اس نے پھر بھی سوٹ پہنے رکھا اور جب وہ چلتا تھا تو ایسے لگتا تھا کہ وہ فیشن شو میں کیٹ واک کر رہا ہے
اگرچہ صدام کے محافظوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس سے قریب نہ جائیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا محافظوں کی صدام سے دوستی بڑھتی گئی
مقدمے کے دوران صدام حسین کو دو جیلوں میں رکھا گیا تھا۔
پہلی جیل بغداد میں موجود انٹرنیشنل ٹریبونل کا تہہ خانہ اور دوسری شمالی بغداد میں موجود ان کا محل تھی۔ یہ محل ایک جزیرے پر تھا، جس تک پہنچنے کے لیے پل کا استعمال کیا جاتا تھا
بارڈنورپر کہتے ہیں کہ ہم نے صدام کو اس سے زیادہ نہیں دیا، جس کے وہ حقدار تھے لیکن ہم نے کبھی بھی ان کی تضحیک نہیں کی
اسٹیو ہٹکنسن اور کرس ٹاسکر سمیت دیگر محافظوں نے اسٹور روم کو صدام کا دفتر بنانے کی کوشش کی اور منصوبہ یہ تھا کہ صدام کو ‘سرپرائز’ دیا جائے
اسٹورروم میں پڑے سامان سے چمڑے کی ایک کرسی اور ایک چھوٹی سی میز کو نکالا اور میز پر ایک چھوٹا سا جھنڈا رکھا دیا گیا
یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ ہم آفس کا ایک ماحول پیدا کر سکیں اور جیسے ہی صدام کمرے میں داخل ہوئے ایک سپاہی نے میز کی گرد صاف کرنی شروع کر دی
یہ دیکھ کر صدام اونچی آواز میں ہنسنے لگے اور کرسی پر بیٹھ گئے۔ ان کی سکیورٹی پر مامور سپاہی ان کے سامنے موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ منظر ایسا تھا، جیسے صدام عدالت میں موجود ہیں
بارڈنورپر کہتے ہیں کہ سپاہیوں کی یہی کوشش تھی کہ صدام کو خوش کیا جائے۔ جواب میں صدام بھی ان کے ساتھ مذاق کیا کرتے تھے اور ماحول کو خوشگوار رکھتے تھے
بہت سے سپاہیوں نے بعد میں بارڈنورپر سے کہا کہ ‘انہیں اس بات پر پورا یقین تھا کہ اگر ان کے ساتھ کچھ برا ہوتا تو صدام ان کے لیے اپنی زندگی کی پرواہ بھی نہ کرتے۔’
جب بھی صدام کو وقت ملتا تھا تو وہ سپاہیوں سے پوچھتے تھے کہ ان کے خاندان کی حفاظت کون کرتا ہے
اس کتاب کا سب سے حیران کن حصہ وہ ہے جس میں بتایا گیا کہ امریکا کا دشمن سمجھے جانے والے صدام کی موت پر سپاہی بہت غمگین ہوئے
ان سپاہیوں میں شامل ایڈم روتھرسن نے بارڈنورپر کو بتایا کہ ‘جب صدام کو پھانسی دے دی گئی، ہمیں لگا ہم نے اسے دھوکہ دیا ہے۔ ہم خود کو قاتل تصور کرتے تھے۔ ہمیں لگا جیسے ہم نے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا ہے، جو ہمارے بہت قریب تھا۔’
وہ لکھتے ہیں”جب صدام کو پھانسی دے دی گئی اور ان کی لاش کو باہر لایا گیا تو باہر موجود ہجوم میں شامل لوگوں نے ان پر تھوکنا شروع کر دیا اور گالیاں دینے لگے“
بارڈنورپر لکھتے ہیں بارہ میں سے ایک نے کوشش کی کہ وہ ہجوم کو ایسا کرنے سے روکے تاہم ان کے ساتھیوں نے اسے واپس کھینچ لیا۔ ایک اور سپاہی اسٹیو ہچنسن نے امریکی فوج سے استعفیٰ دے دیا
اسٹیو اس وقت جارجیا میں اسلحے سے متعلق ٹریننگ دیتے ہیں۔ اسٹیو کے مطابق انہیں اعلیٰ امریکی حکام کی جانب سے کہا گیا تھا ”وہ صدام کی لاش کی بے حرمتی کرنے والوں کو نہ روکیں“
مصنف کا کہنا ہے کہ اپنے آخری ایام میں صدام کو توقع تھی کہ انہیں پھانسی نہیں دی جائے گی
30 دسمبر 2006 کو صدام حسین کو صبح تین بجے اٹھایا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ انہیں کچھ ہی دیر میں پھانسی دے دی جائے گی
صدام کو مایوسی ہوئی۔ وہ خاموشی سے جا کر نہائے اور پھانسی کے لیے خود کو تیار کرنے لگے
اپنی پھانسی سے کچھ ہی دیر پہلے صدام نے اسٹیو کو باہر بلایا اور اپنی کلائی پر بندھی گھڑی اسے دے دی
اب بھی جارجیا میں اسٹیو کے گھر میں وہ گھڑی محفوظ ہے اور اس کی ٹک ٹک سنائی دیتی ہے.