اسلام آباد – پاکستان کی قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے ضمنی بجٹ پیش کرتے ہوئے ایسی متعدد ٹیکس رعایتیں ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کا مقصد ماضی میں مہنگائی پر قابو پانا بتایا جاتا تھا۔
جمعرات کو ہونے والے ہنگامہ خیز اجلاس کے دوران اپوزیشن ارکان نے جہاں وزیر خزانہ اور وفاقی وزیر شیریں مزاری کی نشست پر جا کر ’آئی ایم ایف ایجنٹ‘ کے نعرے لگائے اور جواب میں جھڑکیاں سنیں، وہیں حکومتی شخصیات نے ضمنی بجٹ کا ایوان کے اندر اور باہر بھرپور دفاع کیا
بجٹ اجلاس کے موقع پر کی گئی نیوز کانفرنس میں شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’عام آدمی کے لیے دو ارب روپے کے ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کر رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس دو ارب سے مہنگائی بڑھ جائے گی تو یہ غلط ہے۔ جتنا واویلا مچایا ہوا ہے یہ صرف دو ارب روپے کے ٹیکس ہیں۔‘
بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطالبے کی روشنی میں جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) 17 فیصد کردیا اور 343 ارب کا ٹیکس استثنیٰ ختم کردیا گیا ہے
چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں بتایا کہ آئی ایم ایف ایک حقیقت ہے
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے کہا کہ آمدن بڑھائیں، ماضی میں مفاد پرست عناصر نے ٹیکس مراعات لیں اور ماضی میں ٹیکس چھوٹ کو واپس نہیں لیا گیا اور آئی ایم ایف کے کہنے پر ہر بار نئے ٹیکس لگائے گئے
منی بجٹ میں کیا نیا ہے؟
منی بجٹ میں روزمرہ استعمال کے 42 آئٹمز پر ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کی گئی ہے۔ مقامی سطح پر فروخت ہونے والی اشیا، بیکری آئٹمز، ڈبل روٹی اور سویٹس، فلائٹس میں استعمال ہونے والی خوردنی اشیا، پولٹری کی برانڈڈ مصنوعات، مقامی سطح پر پیدا ہونے والے سرسوں اور تل کے بیجوں، سپرنکلز، ڈرپ اور سپرے پمپس پر ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ہے۔
بل کے مسودے کے مطابق برانڈڈ پیکنگ میں فروخت ہونے والے ڈیری آئٹمز پر 10 فیصد، سونے چاندی کے زیورات پر ایک سے 17 فیصد، مختلف قسم کے پلانٹس اور مشینری پر پانچ سے 10 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے۔
ماچس پر 17 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے جبکہ ساشے میں فروخت ہونے والی اشیا کا ٹیکس 8 سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
پوسٹ کے ذریعے پیکٹ بھیجنے پر 17 فیصد، زرعی بیجوں، پودوں، آلات اور کیمیکل پر 5 سے 17 فیصد، ادویات کے خام مال پر 17 فیصد، درآمدی سبزیوں پر 10 فیصد اور پیکنگ میں فروخت ہونے والے مصالحوں پر 17 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے
ڈیری مصنوعات اور الیکٹرک سوئچ پر 17 فیصد، پراسس کیے ہوئے دودھ پر ٹیکس 10 سے 17 فیصد، پیکنگ میں دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی اور بالائی پر 10 سے بڑھا کر17 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ برانڈڈ مرغی کے گوشت پر بھی 17 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔
اسی طرح 200 سے 500 ڈالر کی قیمت کے درآمد شدہ موبائل فونز پر 17 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور موبائل فون کمپنیوں کی سروسز پر ایڈوانس ٹیکس میں 10 سے 15 فیصد اضافے کی تجویز ہے
بچوں کے دودھ پر صفر سے 17 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپس پر بھی پانچ فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے
غیر ملکی ٹی وی سیریلز پر 10 لاکھ روپے فی قسط، ڈرامے پر 30 لاکھ روپے جبکہ اشتہارات میں غیرملکی اداکاروں کو دکھانے پر پانچ لاکھ روپے فی سیکنڈ ٹیکس لگانے کی تجویز ہے
اس کے علاوہ 1000 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ٹیکس میں بھی 17 فیصد اضافے جبکہ گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس بھی دگنا کرنے کی تجویز ہے۔
درسی کتابوں اور سٹیشنری آئٹمز ہر ٹیکس نہیں بڑھایا جا رہا
منی بجٹ میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مختلف سروسز جیسا کہ ہیلتھ کلبز، جمز اور فٹنس سینٹرز، شادی ہالز اور آٹو ورکشاپس پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے
منی بجٹ میں متعدد اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کی صورت میں لگ بھگ 150 اشیا مہنگی ہو جائیں گی۔
’امیروں کی دی گئی سبسڈی کی قیمت غریبوں سے وصول کی جارہی ہے‘
منی بجٹ کے حوالے سے معاشی امور پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’یہ منی بجٹ کسی بھی صورت عوام دوست نہیں ہے۔ اس سے مہنگائی کا بوجھ بڑھے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’آئی ایم ایف گذشتہ 10 برسوں سے پاکستان کی حکومتوں سے ٹیکس اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن ماضی کی حکومتیں اس کے لیے دوسرے راستے نکالتی تھیں۔ اس حکومت نے تین برس میں اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کیا، ٹیکس کے حوالے سے یہاں کوئی گروتھ نہیں ہوئی۔‘
’بلکہ انہوں نے ٹیکس اصلاحات کے لیے خود جو کوششیں شروع کی تھیں، انہیں بھی ختم کردیا۔‘
خرم حسین کے مطابق ’حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت نے تین برسوں میں امیر طبقے کو جو سبسڈیز دی ہیں، اب ان کی قیمت غریب عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ہر حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام کی طرف جاتی ہے لیکن اس حکومت نے نئے ایریاز تلاش نہیں کیے۔ انہوں نے ضروری اشیا پر ٹیکس لگایا ہے۔
”نیا سال مبارک ہو“ سوشل میڈیا پر ردعمل
شوکت ترین کے پیش کردہ ضمنی بجٹ اور پریس کانفرنس کے دوران ہی سوشل ٹائم لائنز پر بجٹ میں ٹیکس رعایتوں کے خاتمے پر تنقید اور حکومتی اقدامات پر طنز کا سلسلہ شروع ہو گیا
اس موضوع پر گفتگو کرنے والوں کی بڑی تعداد جہاں ضمنی بجٹ سے مہنگائی بڑھنے پر متفق دکھائی دی وہیں بہت سے ٹویپس نے اسے آئی ایم ایف کی فرمائش پر اٹھائے گئے اقدامات سے تعبیر کیا
سینئر صحافی اور تجزیہ کار طلعت حسین نے ضمنی بجت میں ٹیکس رعایتیں ختم ہونے کو ’عوام کی چیخوں‘ کی وجہ کہا تو لکھا ’پاکستانیو! اور کوئی حکم؟ آپ کا نیال سال نئی چیخوں سے شروع ہو رہا ہے۔ مبارک ہو۔‘
حکومتی حامی ٹویپس ضمنی بجٹ سے مہنگائی نہ بڑھنے کے خیال سے متفق رہے تو ٹیکس بڑھنے کے عمل پر تنقید کرنے والوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔
حماد احمد نے لکھا ’اس میں کوئی ایک ایسی چیز ہے جس سے عام آدمی متاثر ہو۔‘
حکومت کے پیش کردہ ضمنی بجٹ کے بعد نئے سال میں نئے ٹیکسوں سے مہنگائی بڑھنے کا ذکر کرنے والوں نے موقف اپنایا کہ ’اب کوئی گھبرائے یا نہ گھبرائے، کمپنی کو کوئی فرق نہیں پڑنا۔‘
ضمنی بجٹ پیش کرنے کے لیے اسمبلی اجلاس کے دوران حکومتی و اپوزیشن ارکان کے رویے سے نالاں افراد نے اسے ’حکومت اور اپوزیشن کا ملا جلا ناٹک‘ تک کہہ ڈالا
مہنگائی سے متعلق بحث میں یہ نکتہ خصوصی توجہ کا مرکز رہا کہ اس سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جو افراد اس تاثر سے متفق نہ تھے انہوں نے عام طور پر استعمال ہونے والی اشیا کا ذکر کیا تو ان پر بڑھائے جانے والے ٹیکس کی شرح کا خصوصی ذکر کیا۔
ٹیلی ویژن میزبان اجمل جامی نے عام استعمال کی اشیا میں سے ایک ماچس کو موضوع بنایا تو لکھا ’منی بجٹ کے بعد گویا ماچس کی قیمت کو بھی آگ لگ جائے گی۔‘
سعد مقصود نے ٹیکس بڑھائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں دیے گئے ایک بیان کا حوالہ دیا تو لکھا ’پاکستانی جب مہنگائی ہو تو سمجھ لو تمہارا وزیراعظم چور ہے، یہ بات کون کہا کرتا تھا۔‘
شاہد ہاشمی نے موقف اپنایا کہ ’یہ منی بجٹ مڈل کلاس کے کروڑوں افراد کو متاثر کرے گا، اپر کلاس گھٹن زدہ رہے گی، صرف ارب پتی ہی بچ سکیں گے۔‘
لحاظ علی نے بجٹ پر تبصرے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی مختلف تقریروں میں استعمال کیے گئے ایک فقرے کا سہارا لیا تو لکھا ’وزیراعظم عمران خان نے اپنا وعدہ مکمل طور پر پورا کر دیا کہ میں انہیں رلاؤں گا، منی بجٹ کے بعد پوری قوم رو رہی ہے۔‘
عبدالمجید خان مروت نے بجٹ کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’رعایتیں ختم اور ٹیکس بڑھا کر حکومت منی بجٹ کے ذریعے مہنگائی کا شکار عوام سے سب کچھ نچوڑ رہی ہے۔ یہ کہنا کہ عام آدمی متاثر نہیں ہو گا دھوکہ ہے، یہ کسی ناکسی طریقے سے پوری آبادی کو متاثر کرے گا۔‘
’منی بجٹ‘ پکارے جانے والے ضمنی مالیاتی بل پر تنقید کا سلسلہ بڑھا تو وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے حکومتی موقف دہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ 350 ارب روپے کے ٹیکس میں اصل ٹیکس صرف 71 ارب روپے کا ہے۔
ضمنی بجٹ پیش ہونے کے بعد کی گئی نیوز کانفرنس میں وزیرخزانہ شوکت ترین نے جہاں بجٹ سے مہنگائی بڑھنے کا خیال پیش کرنے والوں پر سخت تنقید کی تھی وہیں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ’آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ سب پر ٹیکس لگایا جائے۔‘