واشنگٹن – افغان امن عمل کے لیے سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ اگر معزول افغان صدر اشرف غنی واقعی خوف زدہ تھے، تو انہیں امریکہ سے مدد مانگنی چاہیے تھی
زلمے خلیل زاد، سابق افغان صدر اشرف غنی کے بی بی سی کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو کا جواب دے رہے تھے، جس میں اشرف غنی نے کہا تھا کہ اگر وہ کابل میں رہتے تو انہیں مار دیا جاتا
خلیل زاد کا، اس سوال پر کہ آیا کابل کے سقوط کی فوری پیش گوئی امریکی انٹیلیجنس کی ناکامی کو ثابت کرتی ہے، کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے تو اس ناکامی کا تعلق افغان قیادت سے ہے، کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ صدر غنی بھاگ جائیں گے… جی ہاں، ہم نے یہ پیش گوئی نہیں کی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ اشرف غنی کی توجہ اقتدار میں رہنے پر ہے
اس سے قبل اشرف غنی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کا ملک چھوڑنے کا فیصلہ غیر متوقع تھا اور یہ اس وقت ہوا جب سکیورٹی فورسز نے انہیں صدارتی محل میں بتایا کہ وہ اور کابل شہر سکیورٹی برقرار رکھنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں
بی بی سی ریڈیو ون کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق برطانوی چیف آف اسٹاف سر نک کارٹر نے کہا کہ صدر کے طور پر اشرف غنی کی واحد غلطی امریکا اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں پر بھروسہ کرنا تھی
اشرف غنی نے کہا کہ انہیں حقانی نیٹ ورک کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کے عسکریت پسند کابل میں داخل نہیں ہوں گے، لیکن دو گھنٹے بعد صورت حال بدل گئی
اشرف غنی نے اس خصوصی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ افغان امن عمل اور امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں افغان حکومت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا
انہوں نے بتایا کہ ”طالبان کے دو مختلف گروہ“ مختلف سمتوں سے اندر داخل ہوئے۔ ان کے درمیان ممکنہ تصادم سے پچاس لاکھ افراد کا شہر کابل ملیا میٹ ہوجاتا اور عوام میں جو افراتفری پھیلتی وہ بے تحاشا ہوتی
انہوں نے بتایا کہ وہ اس بات پر رضامند ہوئے کہ ان کے قومی سلامتی کے مشیر اور ان کی اہلیہ کابل چھوڑ دیں اس کے بعد وہ ایک گاڑی کا انتظار کرتے رہے، جو انہیں وزارت دفاع تک لے جاتی، لیکن ایسی کوئی گاڑی پہنچی ہی نہیں
اس کی بجائے صدارتی سکیورٹی کے ’دہشت زدہ‘ سربراہ ڈاکٹر محب ان کے پاس آئے اور کہا کہ اگر اشرف غنی (طالبان کے خلاف) اٹھ کھڑے ہوئے تو ’ہم سب مارے جائیں گے۔‘
سابق افغان صدر نے کہا، ’انہوں نے مجھے دو منٹ سے زیادہ نہیں دیے۔ میری ہدایت تھی کہ خوست روانگی کی تیاری کریں۔ انہوں نے بتایا کہ خوست اور جلال آباد پر قبضہ ہو چکا ہے۔‘
’مجھے نہیں معلوم تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ جب ہم نے پرواز کی تو واضح ہو گیا کہ ہم افغانستان چھوڑ رہے ہیں۔ تو یہ بالکل اچانک تھا۔‘
اشرف غنی کے یوں اچانک ملک سے فرار ہونے پر افغانستان کے اندر اور باہر ان پر خاصی تنقید کی جاتی رہی ہے اور تنقید کرنے والوں میں ان کے نائب صدر امراللہ صالح بھی شامل ہیں جو اسے ’ذلت آمیز‘ کہہ چکے ہیں۔ جبکہ اشرف غنی کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فرار کے وقت وہ بڑی تعداد میں ڈالرز بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے.