برلن – جرمنی کی حکومت نے 1995ع میں بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کا انکار کرنے پر ہولوکاسٹ کے ایک اسرائیلی تاریخ دان کو سرکاری اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے
عرب نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق آؤشوِٹس حراستی کیمپ کی تاریخ کے ماہر گیڈیئن گریف کو اعلیٰ سطح پر ایوارڈ سے نوازنے کے فیصلے پر برلن کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے
جس کے بعد جرمن وزارت خارجہ نے جمعرات کو ایک بیان میں سابق چانسلر انگیلا مرکل کی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پروفیسر گریف کو وفاقی جمہوریہ جرمنی کے آرڈر آف میرٹ سے نوازنے کی تجویز واپس لے لی گئی ہے۔ یہ سابقہ وفاقی حکومت کا فیصلہ تھا۔‘
جرمن وزارت خارجہ نے بوسنیا ہرزیگووینا کے اندر سربیا کے نیم خودمختار علاقے کی جانب سے سریبرینیکا، جہاں آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا، پر کمیشن کی طرف سے کیے گئے کام کی طرف اشارہ کیا
بوسنیا کے ایک اسلامی اسکالر کو بھیجے گئے خط میں، جس کا بوسنیائی زبان کے ذرائع ابلاغ میں حوالہ دیا گیا، جرمن صدر فرانک والٹر اسٹین میئر نے ایوارڈ کی تبدیلی کو کمیشن کے سربراہ کے طور پر گریف کے عہدے سے جوڑ دیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے سربیا کے قوم پرستوں کی جانب سے 1995 میں سریبرینیکا کی نسل کشی میں ہلاکتوں کی تعداد کو کم کیا ہے
تاہم وزارت خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ برلن کا گیڈیئن گریف سے ایوارڈ واپس لینے کا فیصلہ ان کی ہولوکاسٹ اور اسرائیل ہجرت کرنے والے جرمن یہودیوں پر تحقیق میں جو خدمات ہیں، ان کے اعتراف کو کم نہیں کرتا
دوسری جانب گیڈیئن گریف نے جمعرات کو اسرائیلی اخبار ہاریٹز کو بتایا کہ انہیں غیر سرکاری طور پر آگاہ کیا گیا تھا کہ وہ ایوارڈ وصول نہیں کریں گے
انہوں نے کہا کہ بوسنیا کے اخوان المسلمین کے ارکان ان کی ساکھ کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں
دوسری جانب بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو میں ایوارڈ نہ دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے.