اسلام آباد – ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک بھر کی بڑی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی اساتذہ کی اسامیاں خالی پڑی ہیں، جس کے باعث دو سو اٹھائیس پی ایچ ڈی پروگرام بند کر دیے گئے ہیں
دوسری جانب چار ہزار سے زائد پی ایچ ڈی اسکالرز بے روزگار ہیں، جبکہ ایچ ای سی کی جانب سے بے روزگار پی ایچ ڈی اسکالرز کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے قائم پورٹل پر صرف چھ سو بیالیس افراد نے خود کو رجسٹرڈ کیا ہے
ان میں سے تین سو اٹھاون فریش پی ایچ ڈی ہولڈرز کو ایک سال کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے انٹیرم پلیسمنٹ آف فریش پی ایچ ڈیز کے تحت ملازمتیں دی گئیں
دستیاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق ایچ ای سی کو ملک بھر کی ایک سو اُنیس یونیورسٹیوں کے آٹھ سو انہتر پروگراموں میں سے دو سو اٹھائیس پروگرام پی ایچ ڈی کے لیے مطلوبہ معیار کے اساتذہ کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بند کرنا پڑے ہیں
ایچ ای سی کے مطابق پاکستان میں کسی بھی نجی یا سرکاری یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی پروگرام شروع کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اور معیار وضع کیے گئے ہیں، اس کے تحت متعلقہ مضمون میں ڈپارٹمنٹ میں تین کُل وقتی پی ایچ ڈی اساتذہ کا ہونا لازمی ہے، جبکہ ایک استاد ایک وقت میں صرف پانچ طالب علموں کو سپروائز کر سکتا ہے
اس پالیسی پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے ایچ ای سی نے سال 2021ع میں خصوصی مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دیں۔ ان ٹیموں نے ملک بھر کی ایک سو اُنیس یونیورسٹیوں کے آٹھ سو انہتر پی ایچ ڈی پروگراموں کا جائزہ لیا، جن میں اڑسٹھ سرکاری اور اکیاون غیر سرکاری جامعات شامل تھیں
ایچ ای سی کی رپورٹ کے مطابق 869 میں سے641 پروگرام ایچ ای سی کے وضع کردہ قواعد و ضوابط اور معیار پر پورا اُترے تھے جبکہ 228 پروگراموں میں اساتذہ اور طلبہ کا تناسب پورا نہیں تھا جبکہ دیگر معیار پر بھی پورا نہیں اترتے اسی وجہ سے انھیں بند کر دیا گیا
رپورٹ کے مطابق پنجاب یونیورسٹی لاہور کو مجموعی طور پر اپنے پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے 953 پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے، لیکن یونیورسٹی میں اس وقت 662 اساتذہ موجود ہیں اور 291 اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی برائے خواتین فیصل آباد کو اپنے متعدد پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے مجموعی طور پر 428 پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے، جبکہ یونیورسٹی کے پاس اس وقت صرف 224 اساتذہ موجود ہیں۔
اس طرح یونیورسٹی کو 204 پی ایچ ڈی اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے
یونیورسٹی آف بلوچستان میں پی ایچ ڈی کے لیے 324 پی ایچ ڈی اساتذہ کی آسامیاں مختص کی گئی ہیں، جج میں سے 168 خالی پڑی ہیں جبکہ 156 پی ایچ ڈی اساتذہ یونیورسٹی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی برائے خواتین کو اپنے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے 119 آسامیوں میں سے صرف 20 موجود ہیں جبکہ 99 پی ایچ ڈی اساتذہ کی کمی ہے
ڈاؤ یونیورسٹی سندھ میں پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے مجموعی طور پر 244 پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے، تاہم یونیورسٹی کے پاس صرف 110 پی ایچ ڈی اساتذہ موجود ہیں اور یونیورسٹی کو 134 اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے
ڈاؤ یونیورسٹی کے صرف میڈیکل سائنسز کے شعبہ میں پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے 208 اساتذہ کی ضرورت ہے، جبکہ یونیورسٹی کے پاس صرف 96 پی ایچ ڈی اساتذہ موجود ہیں جبکہ 112 اساتذہ کی کمی ہے
فیڈرل اردو یونیورسٹی سندھ میں مختلف پروگراموں کے لیے 288 اساتذہ کی کل اسامیاں ہیں، جن میں سے 121 اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں، جبکہ یونیورسٹی کے پاس 167 پی ایچ ڈی موجود ہیں
غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کے متعدد پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے 189 پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے، جبکہ یونیورسٹی کے صرف 51 پی ایچ ڈی اساتذہ موجود ہیں اور 138 اساتذہ کی قلت ہے
یونیورسٹی کے آرٹس اینڈ ہیومنٹی ڈیپارٹمنٹ کے لیے 52 اساتذہ درکار ہیں، جبکہ یونیورسٹی کے صرف آٹھ استاد موجود ہیں
اسی طرح بنیادی سائنس کے شعبہ کے لیے 61 اساتذہ کی ضرورت ہے، جبکہ ادارے کے پاس صرف نو اساتذہ موجود ہیں اور 52 کی کی کمی ہے
جناح میڈیکل یونیورسٹی میں 100 پی ایچ ڈی اساتذہ کی آسامیوں میں سے 71 خالی ہیں
ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو مختلف پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے 145 پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے لیکن یونیورسٹی کے پاس صرف 57 پی ایچ ڈی موجود ہیں جبکہ 88 آسامیاں خالی پڑی ہیں۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں 37 پی ایچ ڈی اساتذہ کی کمی ہے جبکہ باچا خان یونیورسٹی کے مختلف پروگراموں کے لیے 60 پی ایچ ڈی اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں
پی مہر علی شاہ بارانی یونیورسٹی پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے کُل 205 آسامیاں مختص ہیں جن میں سے 121 پی ایچ ڈی اساتذہ موجود ہیں جبکہ 84 کی قلت کا سامنا ہے
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو بھی مجموعی طور پر 55 پی ایچ ڈی اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے
اس حوالے سے ایچ ای سی کا کہنا ہے کہ جن یونیورسٹیوں کے پاس متعلقہ شعبوں میں مطلوبہ تعداد اور معیار کے مطابق اساتذہ موجود نہیں ہیں، ان کے پی ایچ ڈی پروگرام بند کر دیے گئے ہیں
پی ایچ ڈی ایسوسی ایشن کے مطابق ایچ ای سی صرف ان پی ایچ ڈی اسکالرز کو ایک سال کے لیے ملازمت فراہم کرتا ہے، جنہوں نے پی ایچ ڈی تازہ تازہ مکمل کی ہو، جبکہ اس وقت بھی ملک میں چار ہزار سے زائد ایسے افراد موجود ہیں، جنہوں نے سال 2009ع سے 2019ع کے درمیان پی ایچ ڈی کے بعد بھی ایک ایک سال کا مینٹورشپ پروگرام مکمل کیا، لیکن وہ تاحال بے روزگار ہیں
ایچ ای سی کا موقف ہے کہ مینٹوشپ پروگرام کا بنیادی مقصد ہی ملازمت کے مواقع تلاش کرنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ اس وقت بھی ایچ ای سی نے اپنے پی ایچ ڈی ڈیٹا بینک کی بنیاد پر روزی ڈاٹ پی کی کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، تاکہ اس میں موجود پی ایچ ڈی خواتین و حضرات کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے جا سکیں
ایچ ای سی کی انہی کوششوں کی وجہ سے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی اساتذہ کا تناسب 20 فیصد سے بڑھ کر 32 فیصد ہوگیا ہے
خیال رہے کہ اس وقت بھی کئی ایک یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن کے پاس پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے اساتذہ سرپلس میں موجود ہیں۔ جن یونیورسٹیوں کے پاس سرپلس میں اساتذہ موجود ہیں ان میں کامیسٹس اسلام آباد، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، ولی خان یونیورسٹی مردان، آغا خان یونیورسٹی کراچی، ایئر یونیورسٹی اسلام آباد، بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد اور بلوچستان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی شامل ہیں.