اسلام آباد – اسلام آباد ہائی کورٹ نے راول ڈیم کے کنارے پاکستانی بحریہ کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے نیوی سیلنگ کلب کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے، تین ہفتوں میں گرانے کا حکم دے دیا ہے
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول فارمز کی تعمیر کے لیے جاری کیے گئے اجازت نامے کو بھی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیپیٹل ڈولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو یہ این او سی جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ نے جمعے کو پاکستان بحریہ کے زیر انتظام شروع کیے گئے ہاؤسنگ پروجیکٹ اور کلب کے منصوبوں کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سُنایا
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیول سیلنگ کلب کی تعمیر غیرقانونی ہے اور اس کی عمارت کو تین ہفتے میں گرا دیا جائے اور اس حکم پر عمل درآمد کی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے
عدالت کا کہنا ہے کہ پاکستانی بحریہ نے نیشنل پارک کی جگہ پر تجاوزات قائم کیں جو غیرقانونی ہیں
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان بحریہ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ’ریئل سٹیٹ وینچر‘ کرے اور اس قسم کے کاروبار کے لیے ادارے (بحریہ) کا نام استعمال نہیں کیا جا سکتا
عدالت کا کہنا ہے کہ بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے کلب کی غیر قانونی عمارت کا افتتاح کر کے آئین کی خلاف ورزی کی
عدالت نے آڈیٹر جنرل کو نیول فارمز کا آڈٹ کر کے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگانے کی ہدایت بھی کی
فیصلے میں ایڈمرل ظفر محمود عباسی کے علاوہ اس منصوبے کے دیگر ذمہ داران کے خلاف مس کنڈکٹ کے تحت قانونی اور فوجداری کارروائی کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے
واضح رہے کہ راول ڈیم کے کنارے پر نیوی کلب کی تعمیر کے خلاف درخواست زینت سلیم نامی خاتون نے دائر کی تھی، جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اسلام آباد نیشنل پارک میں تعمیرات غیر قانونی ہیں کیونکہ اس سے قدرتی ماحول متاثر ہو رہا ہے
درخواست میں کہا گیا تھا کہ راول ڈیم سے راولپنڈی شہر کو پانی کی ترسیل کی جاتی ہے، اس لیے راول ڈیم کے کنارے سیلنگ کلب سے ماحولیاتی آلودگی پھیلے گی
یہ معاملہ جولائی 2020ع سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔ ابتدائی طور پر نیوی حکام نے موقف اپنایا تھا کہ 1991ع میں حکومت پاکستان نے یہ جگہ سیلنگ کی پریکٹس کے لیے پاکستان نیوی کے لیے مختص کی تھی
قبل ازیں سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے لیے فوج کی قربانیوں سے کسی کو انکار نہیں، لیکن ایسے غیر قانونی کام کرکے ملک کے لیے جان دینے والوں کی روحوں کو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے
سماعت کے دوران عدالت نے اس وقت کی بحری فوج کے سربراہ کو نوٹس جاری کیا تھا جس کے جواب میں نیول چیف نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت کی ہدایات پر نیشنل واٹر سپورٹس سینٹر گذشتہ پچیس برس سے پاکستان نیوی کے پاس ہے، جس کے قیام کا مقصد واٹر اسپورٹس میں نوجوان ایتھلیٹس کی استعدادکار بڑھانا ہے
نیول چیف کا کہنا تھا کہ سینٹر کو پاکستان میں واٹر اسپورٹس کی ترقی کے لیے جدید سہولیات سے آراستہ اور اپ گریڈ کرنے کا پراجیکٹ جولائی 2020ع میں نان پبلک فنڈز سے مکمل ہوا اور اس میں عوامی پیسے کا استعمال نہیں کیا
انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ معاملے کو وسیع تر قومی مفاد میں دیکھا جائے
عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران گذشتہ سال جولائی کے مہینے میں اسلام آباد کی کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو بھی نوٹس جاری کیا تھا، جس نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو اس کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کے لیے نوٹس جاری کیا گیا تھا
سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کلب کی عمارت کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کو فوری طور پر روکے
نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ اتھارٹی کے نوٹس میں ایک مرتبہ پھر یہ آیا کہ غیرقانونی تعمیراتی سرگرمیاں پھر بحال کر دی گئی ہیں اور کلب کو فعال کردیا گیا ہے، یہ سی ڈی اے (بائی لاز) کی صریح خلاف ورزی ہے جسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے
ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ‘آپ کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ غیرقانونی/غیرمجاز تعمیراتی کام اور پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی فعال سرگرمیوں کو فوری طور پر روکیں’
اس دوران راول جھیل کے کنارے تعمیرات کے معاملے میں پاکستان نیول فارمز سے متعلق شکایت کنندہ زینت سلیم کی عدالت عالیہ میں دائر کردہ درخواست پر معاملہ مزید ابھرا تھا اور پھر 16 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیرقانونی تعمیرات کے خلاف درخواست پر چیف آف نیول اسٹاف، اٹارنی جنرل برائے پاکستان اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو نوٹسز جاری کیے تھے
راول جھیل کے کنارے تعمیر کی گئی نیول کلب کو کمرشل بنیادوں پر چلایا گیا اور اس کلب کی ممبر شپ فیس کی مد میں عوام سے لاکھوں بھی وصول کیے گئے تھے
مبینہ طور پر افواج پاکستان کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کے لیے ممبرشپ فیس دس ہزار، بیوروکریٹس کے لیے ڈیڑھ لاکھ جبکہ تاجروں اور سفارتکاروں کے لیے چھ لاکھ روپے تک مقرر کی گئی تھی
عدالت نے اپنے حکم میں نیول کلب میں تجارتی سرگرمیوں کو روکنے کا حکم دیا تھا تاہم اس دوران عدالت کے نوٹس میں لایا گیا کہ عدالتی حکم کے باوجود وہاں پر تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں جس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بینچ کے سربراہ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں ایلیٹ کلاس عدالتی احکامات کو یکسر نظر انداز کرتی ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے اسلام آباد میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے
نیول حکام نے مبینہ طور پر کلب کی تعمیر کرکے وہاں پر عام لوگوں کا داخلہ بند کردیا تھا اور اس علاقے میں لوگوں کو مچھلیاں پکڑنے کی بھی اجازت نہیں تھی
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیول ہیڈ کوراٹر کے اردگر تعمیر کی گئی دیوار کے خلاف بھی ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس درخواست کی سماعت کے دوران بھی عدالت کی طرف سے سخت ریمارکس آئے تھے.