کراچی – گذشتہ سال 10 اپریل کو کراچی سے لاپتہ ہونے والے عبدالحمید زہری کی بیٹی سعیدہ حمید کا کہنا ہے کہ ان کے والد بلوچستان کے علاقے خضدار سے اپنے بچوں کو بہتر تعلیم کے لیے کراچی لائے، مگر اب بہتر تعلیم تو دور، بچے تعلیم جاری تک نہیں رکھ سکے
کالج کی طالبہ سعیدہ حمید کا کہنا ہے”10 اپریل 2021 کی رات تین بجے ایک درجن کے قریب سادہ کپڑوں میں اہلکار ہمارے گھر میں گھس آئے اور کہا کہ وہ صرف تلاشی لینا چاہتے ہیں۔“
سعیدہ حمید نے بتایا کہ ان کے پاس ایک موبائل فون تھا، جس میں میرے والد کی تصویر تھی۔ انہوں نے میرے والد سے شناختی کارڈ مانگا اور تصدیق کے بعد انہیں اپنے ساتھ یہ کہہ کر لے گئے کہ پوچھ گچھ کے بعد تھوڑی دیر میں انہیں چھوڑ دیں گے، لیکن انہیں آج تک رہا نہیں کیا گیا۔“
سعیدہ حمید کے مطابق ان کے والد سینتالیس سالہ عبدالحمید زہری کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار کے ایک گاؤں زہری سے ہے، مگر وہ بعد میں خضدار منتقل ہوگئے
بعد ازاں چار بیٹوں اور چار بیٹیوں کے والد عبدالحمید زہری اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ کراچی میں انہوں نے گلستان جوہر بلاک 13 میں کرائے کا مکان لیا اور واٹر فلٹریشن کا کام شروع کر دیا
سعیدہ حمید نے بتاتی ہیں ”میرے والد کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہیں تھا۔ وہ ایک سیدھے سادے کاروباری فرد تھے۔ انہیں شوگر کی بیماری ہے اور وہ دوائیاں لیتے ہیں۔“
ان کا کہنا تھا کہ والد کے لاپتہ ہو جانے کے بعد گھر کی کفالت مشکل ہوگئی۔ میرے چھوٹے بہن، بھائی ایک سال سے اسکول نہیں گئے، کیوں کہ اسکول والے فیس مانگتے ہیں۔ میں نے بھی کالج جانا ترک کر دیا ہے
سعیدہ حمید اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ گذشتہ کئی مہینوں سے دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ اپنے والد کی تصویر اٹھائے کراچی پریس کلب کے سامنے اپنے والد کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہی ہیں
عبدالحمید زہری کی بازیابی کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی ’رلیزعبدالحمید زہری‘ کا ہیش ٹیگ چلایا جا رہا ہے
سعیدہ حمید کے مطابق ’شاہراہ فیصل تھانے کی پولیس کئی مہینے تک میرے والد کی گمشدگی کا مقدمہ درج نہیں کر رہی تھی، مگر ہمارے بار بار کہنے پر آخرکار دسمبر 2021 میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365 اور 34 کے تحت نامعلوم افراد کے خالف مقدمہ درج کرلیا گیا۔‘
’پولیس نے ہمیں سختی سے منع کیا ہے کہ ایف آئی آر کی کاپی کسی کو نہیں دکھانی۔‘
سعیدہ حمید کہتی ہیں ”میرے والد کی گمشدگی کے بعد زندگی رک سے گئی ہے۔ ہر وقت دروازہ تکتے رہتے ہیں۔ چھوٹی بہن پوچھتی ہے والد کہاں گئے؟ تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ میرے والد نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ میں اپیل کرتی ہوں میرے والد کو رہا کیا جائے۔“
دوسری جانب شاہراہ فیصل تھانے کے ایس ایچ او رانا حسیب نے اس معاملے پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے.