سعادت حسن منٹو کی شناخت اُردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوتی ہے لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اپنی نوعمری اور جوانی سے انہیں فلموں سے بھی ویسی ہی دلچسپی تھی جیسی ادب سے
فلموں سے منٹو کے عشق کا آغاز امرتسر سے ہی ہو گیا تھا۔ وہ ہالی وڈ فلموں کے سحر میں مبتلا تھے اور کئی فن کاروں مثلاً بورس کارلوف، مارلین ڈیرچ، جان گلبرٹ، گریٹا گاربو، میری پک فورڈ، ایڈی پولو، گلوریا سوانسن اور لان چینی کی اداکاری سے بے حد متاثر تھے۔سنہ 1933 میں وہ باری علیگ کے اخبار ’مساوات‘ سے وابستہ ہوئے اور جلد ہی اِس اخبار میں فلمی کالم لکھنے لگے۔ سنہ 1936 میں منٹو بمبئی چلے گئے، جو اس وقت ہندوستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا مرکز تھا
نذیر لدھیانوی نے انہیں اپنے رسالے ’مصور‘ کی ادارت کی دعوت دی۔ منٹو اس رسالے میں تنقیدی مضامین اور فلموں پر تبصرے لکھنے لگے۔ مصور کے توسط سے منٹو نے اپنی بے باک تحریروں سے فلمی صحافت کا ایک نیا باب رقم کیا اور بہت جلد فلمی دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ اسی دوران اُن کی ملاقات دلیپ کمار کے بڑے بھائی ایوب خان اور ’فلمی انڈیا‘ کے ایڈیٹر بابو راؤ پٹیل سے ہوئی جو اس زمانے میں فلمی صحافت کا ایک قد آور نام سمجھا جاتا تھا۔ بابو راؤ پٹیل کے توسط سے انھیں ایک فلم کمپنی میں فلمی کہانیوں کی نوک پلک سنوارنے اور مکالمے لکھنے کا کام مل گیا
اس طرح منٹو کا دیرینہ خواب، کہ وہ فلمی صنعت سے وابستہ ہو جائیں، پورا ہو گیا۔ منٹو کو جس پہلی فلم کے مکالمے لکھنے کا کام ملا وہ ’بن کی سندری‘ تھی۔ اس فلم کی ہیروئن عیدن بائی اور ہیرو راج کشور تھے۔فلموں کے مکالمے لکھنے کا کام آگے بڑھا تو منٹو سے کسی فلم کی کہانی لکھنے کی فرمائش بھی ہونے لگی۔ اسی زمانے میں امپیریل فلمی کمپنی کے اردشیر ایرانی نے ہندوستان کی پہلی رنگین فلم بنانے کا ارادہ کیا تو انھوں نے منٹو سے اس فلم کی کہانی لکھنے کی درخواست کی۔ منٹو نے اپنا ایک افسانہ ارد شیر ایرانی کو پیش کیا۔ اس افسانے کا نام ’کسان کنیا‘ تھا۔
مگر ہوا یہ کہ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو فلم کے مصنف کے نام کے طور پر شانتی نکیتن کے فارسی کے پروفیسر ضیا الدین کا نام دیا گیا۔ کمپنی کے اس رویے پر منٹو کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے شدید احتجاج کیا۔ اس احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ امپیریل فلم کمپنی نے نہ صرف یہ کہ منٹو کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا بلکہ بطور مصنف ان کی اگلی فلم ’مجھے پاپی کہو‘ انہی کے نام سے پیش کی
’مجھے پاپی کہو‘ فلاپ ہو گئی، جس کے بعد امپیریل فلم کمپنی بند کر دی گئی۔ اب منٹو نے دوسرے فلمی اداروں کا رُخ کیا اور کئی دوسری فلموں کی کہانیاں تحریر کیں جن میں سروج مووی ٹون کی ’تو بڑا کہ میں بڑا‘ ، ’ہندوستان سنے ٹون کی‘، ’اپنی نگریا‘ اور مہرا پکچرز کی ’دیکھا جائے گا‘ شامل تھیں
یہیں ان کی ملاقاتیں ترقی پسند ادبی تحریک کے سرکردہ افراد سید سجاد ظہیر، علی سردار جعفری، خواجہ احمد عباس اور وی شانتا رام وغیرہ سے ہوئی اور وہ اس تحریک سے وابستہ ہو گئے
سنہ 1941 میں منٹو دہلی چلے گئے، جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ یہاں فلم سے یکسر ماحول تھا مگر منٹو نے اس دنیا میں بھی بہت جلد اپنا مقام بنا لیا۔ دہلی کے قیام کے دوران بھی منٹو نے فلمی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا
یہیں انہوں نے مرزا غالب کی زندگی پر ایک فلم کا اسکرپٹ لکھنا شروع کیا، جو بعد میں راجندر سنگھ بیدی کے مکالموں کے ساتھ پردہ اسکرین پر پیش ہوئی۔ سنہ 1942 میں منٹو واپس بمبئی آ گئے اور ایک مرتبہ پھر فلمی دنیا سے منسلک ہو گئے
اس قیام بمبئی کے دوران منٹو نے جن فلموں کی کہانیاں لکھیں، ان میں ’نوکر‘، ’چل چل رے نوجوان‘، ’بیگم اور شکاری‘، ’جھمکے‘ اور ’آٹھ دن‘ کے نام شامل ہیں۔
سنہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد منٹو لاہور آ گئے۔ وہ افسانہ نگاری بھی کرتے رہے اور فلمی کہانیاں بھی لکھتے رہے۔ انہوں نے بہت سی فلمی شخصیات کے خاکے بھی لکھے، جو اُن کے خاکوں کے مجموعوں ’گنجے فرشتے‘ اور ’لاؤڈ اسپیکر‘ میں شامل ہیں۔ منٹو کے کئی افسانوں کو فلم کے پردے پر بھی منتقل کیا گیا، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے
سنہ 2012 میں سعادت حسن منٹو کی پیدائش کا صد سالہ جشن منایا گیا تو کئی فلم ساز منٹو کی زندگی پر مبنی فلم بنانے پرمتوجہ ہوئے۔ اس سلسلے میں پہل سرمد سلطان کھوسٹ نے کی۔ انہوں نے شاہد ندیم سے فلم کا اسکرپٹ لکھنے کی درخواست کی اور جیو فلمز کے بینر تلے11 ستمبر 2015 کو منٹو کی زندگی پر بننے والی پہلی بائیوپک منٹو ریلیز کرنے میں کامیاب ہو گئے
اس فلم میں منٹو کا مرکزی کردار بھی سرمد سلطان کھوسٹ نے ادا کیا۔ سرمد کھوسٹ کے علاوہ اس فلم میں ثانیہ سعید، صبا قمر، حنا خواجہ بیات، فیصل قریشی، ماہرہ خان، ہمایوں سعید، شمعون عباسی، سویرا ندیم اور نمرہ بچہ شامل تھے۔ اس فلم کی موسیقی جمال رحمٰن نے مرتب کی تھی
’منٹو‘ مجموعی طور پر ایک کامیاب فلم قرار پائی۔ اسے کئی ادبی میلوں میں بھی دکھایا گیا، مگر ادبی حلقوں نے اس فلم کو بہت زیادہ نہیں سراہا۔ ادبی حلقوں کا کہنا تھا کہ فلم کی کہانی میں بہت زیادہ جھول ہیں
اس فلم میں منٹو کو شراب کا ایسا رسیا دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی دوا لینے نکلتا ہے تو ایک ناشر سے بڑے جتن سے تھوڑے بہت پیسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، مگر دوا کی بجائے شراب خرید لاتا ہے۔
فلم میں بغیر کسی جواز کے نور جہاں کے کردار کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے جس کا منٹو کی زندگی سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا، سوائے اس کے کہ منٹو نے اس کی شخصیت پر نور جہاں، سرور جہاں کے نام سے ایک خاکہ لکھا تھا۔ البتہ ادبی ناقدین نے اس فلم میں شامل منٹو کے بعض افسانوں کی پیشکش کو بہت سراہا۔ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ اور ’ٹھنڈا گوشت‘ کو جس طرح اس فلم میں پیش کیا گیا شاید وہی اس فلم کی تھوڑی بہت کامیابی کا راز تھا
تین برس بعد 21 ستمبر 2018 کو انڈیا میں مشہور ہدایت کارہ نندتا داس کی فلم منٹو بھی نمائش پزیر ہوئی۔ اس فلم میں منٹو کا مرکزی کردار نواز الدین صدیقی نے ادا کیا۔ یہ فلم انڈیا میں باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی، جبکہ پاکستان میں اس فلم کو نمائش کی اجازت ہی نہیں ملی
باکس آفس پر ناکامی کے باوجود فلمی ناقدین نے اس فلم کو بڑا سراہا۔ اس فلم کا اسکرپٹ پاکستانی فلم منٹو کے مقابلے میں بہت مضبوط تھا۔ممتاز نقاد ناصر عباس نیئر نے اس فلم پر لکھے گئے ایک تبصرے میں اعتراف کیا کہ ’نندتا داس کی اس فلم سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فلم سازی کے آرٹ کا گہرا شعور رکھتی ہیں۔ کس سین کو کتنی دیر دکھانا ہے، مختلف سینز میں وقفوں کا اہتمام کیسے کرنا ہے اور ان کے درمیان تعلق کیسے قائم کرنا ہے، کس طرح کی موسیقی پس منظر میں جاری کرنی ہے، پارٹیشن اور بعد کے مناظر کو کیسے ان کی تاریخی سچائی کے ساتھ پیش کرنا ہے، کہاں منٹو کو اور کہاں اس کے کسی افسانے کے کسی ٹکڑے کی ڈرامائی تشکیل دکھانی ہے، اس سب کا وہ گہرا ادراک رکھتی دکھائی دیتی ہیں۔‘
ناصر عباس نیئر نے مزید لکھا کہ ’فلم میں منٹو کی زندگی اور افسانوں کو مہارت سے جوڑا گیا ہے۔ فلم کے آخری حصے میں مینٹل ہسپتال لاہور میں منٹو کو دکھایا گیا ہے، جہاں اسے انڈیا کے مشہور اداکار شیام کی حادثاتی موت کی خبر پڑھنے کو ملتی ہے اور وہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ کا افسانہ شروع ہوتا ہے۔‘
’فلم میں اس افسانے کے جن مکالموں کو پیش کیا گیا ہے ان میں معنویت آج بھی اسی طرح قائم ہے، بشن سنگھ کی نومینز لینڈ پر موت کے منظر کے ساتھ ہی فلم ختم ہو جاتی ہے اور اپنے پیچھے سوالات کا ایک طویل سلسلہ چھوڑ جاتی ہے۔ منٹو کی موت نہیں دکھائی گئی، منٹو کو موت ہوئی ہی کہاں ہے۔‘
(بشکریہ : بی بی سی اردو)