بوسٹن – امریکا میں ہونے والی ایک تازہ طبی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت زیادہ فکرمند اور ذہنی پریشانی کا شکار رہنے والے درمیانی عمر کے مردوں میں آنے والے برسوں میں امراض قلب، فالج اور ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے ہیں
تفصیلات کے مطابق بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مردوں میں ذہنی بے چینی یا فکرمندی ایک ایسے حیاتیاتی عمل سے منسلک ہے، جو امراض قلب اور میٹابولک بیماریوں (ذیابیطس، بلڈ پریشر، توند نکلنا وغیرہ) کا خطرہ بڑھاتا ہے
تحقیق کے مطابق ایسا بچپن یا نوجوانی میں بھی ہوسکتا ہے
اس تعلق کو جاننے کے لئے محققین نے ایک ایجنگ اسٹڈی میں شامل افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی، جو مردوں میں عمر بڑھنے کے عمل پر جاری ایک طویل المعیاد تحقیق ہے
نئی تحقیق میں 1561 مردوں کو شامل کیا گیا تھا، جن کی عمریں 1975 میں اوسطاً تریپن سال تھی، ان افراد کو اس وقت دل کی شریانوں سے جڑے امراض یا کینسر کا سامنا نہیں تھا، جبکہ ان کی فکرمندی اور ذہنی صحت کو بھی جانچا گیا
محققین نے بتایا کہ ذہنی پریشانی اور فکرمندی کا شکار رہنے والے افراد کو ڈر، انزائٹی، اداسی اور غصے کا اکثر زیادہ شدت سے سامنا ہوتا ہے، جو صحت پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے، کیونکہ اس سے روزمرہ کے افعال پر کنٹرول ختم ہوجاتا ہے
ان افراد کے 2015ع کے فالو اپ ڈیٹا کو بھی دیکھا گیا اور امراض قلب اور میٹابولک امراض کا خطرات بڑھانے والے عناصر جیسے بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور خون میں چربی کی سطح، موٹاپے، خالی پیٹ بلڈ شوگر کی سطح اور ورم کو دیکھا گیا
نتائج سے معلوم ہوا کہ اکثر فکرمند اور ذہنی بے چینی کے شکار رہنے والے افراد میں امراض قلب اور میٹابولک امراض کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے
محققین نے بتایا کہ مردوں میں یہ خطرہ تیس سال سے اَسی سال کے بعد کی عمر میں بڑھ جاتا ہے.