دنیا کے کسے بھی شہر یا علاقے کی قدامت کا اندازہ اُس شہر یا علاقے کی تاریخ سے لگایا جاتاہے۔ لیکن اگر کسی شہر یا علاقے کی کوئی تحریری تاریخ نہ ہو تو محققین کے لیے ایک بہت بڑی الجھن پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اس شہر کی قدامت کا تعین کس طرح کریں؟ ایسی صورتحال میں روایات یا ان سے منسوب نشانیاں اور علامات ہی کسی بھی محقق کی تحقیق کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔ البتہ مؤرخین و محققین کے لیے تمام راستے اس وقت بند ہو جاتے ہیں، جب کوئی طاقتور گروہ اس علاقے کے قدیم آثار کو مٹا دے یا انہیں نیست و نابود کردے۔ یہ عمل نہ صرف تاریخ کے طالب علموں کی تحقیق کی راہ میں کانٹے بچھانے کے مترادف ہوگا، بلکہ ان لوگوں کے ساتھ بھی ظلم ہوگا، جن سے یہ روایات اور تاریخ منسوب ہیں۔
شاید بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہو کہ کراچی کا شمالی حصہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کو پہلے ”کوہِ باران“ کہا جاتا تھا (۱) اور اسی نام کی ایک ندی اب بھی اس پہاڑی سلسلے میں موجود ہے۔ موجودہ وقت میں اسے کھیرتھر کہا جاتا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ آگے جاکر بلوچستان کے پہاڑی سلسلوں کا حصہ بن کر دور تک چلا جاتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے اور قرب و جوار میں سماٹ اور بلوچ قبائل آباد ہیں، جن میں بلپتی، کلمتی، گبول، جوکھیہ، نومڑیا، پالاری اور دیگر قبائل صدیوں سے آباد چلے آرہے ہیں۔ یہ قبائل زیادہ تر گلہ بان تھے، جو اس پہاڑی سلسلے کی چراگاہوں میں قدیم زمانے سے گلہ بانی کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان قبائل کے درمیان کبھی کبھار ان چراگاہوں پر دسترس حاصل کرنے کے لیے طویل جنگیں بھی ہوتی تھیں۔اور کبھی یہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف باہم مل کر اپنی آبادیوں کا دفاع بھی کرتے رہے۔ ان جنگوں کے بکھرے ہوئے آثار آج بھی ان پہاڑوں پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ بلوچوں کے دو معروف قبائل رند – لاشار جنگ اگرچہ سبّی کے علاقے میں شروع ہوئی، لیکن اس کی نشانیاں بھی اس پہاڑی سلسلے میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کلمت-بلپت جنگ اور معروف عشقیہ داستان لَلّہ و گراناز کی نشانیاں بھی اسی پہاڑی سلسلہ کی روایات کی نشانیوں میں نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔
رند – لاشار جنگ، رادو نامی ایک شخص کی بیٹی بی بی گوہر (۲) کی اونٹنیوں کے بچوں کے ذبح کرنے کے باعث شروع ہوئی، جو تیس سال تک چلتی رہی۔ بی بی گوہر سیکڑوں اونٹوں اور بے شمار بھیڑ بکریوں کی مالکن تھی، (۳) بلوچ تاریخ میں گوہر کے اونٹ کے بچوں سے شروع ہونے والی جنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ گوہر شروع میں لاشاریوں کے علاقے میں رہتی تھیں اور بعد میں وہ رندوں کے پاس پناہ گزین ہوئیں۔ نلی کی تاریخی جنگ میں رند شکست سے دوچار ہوگئے ، جس کے باعث بی بی گوہر کو سبی سے بے دخل ہونا پڑا اور انہوں نے کراچی کے اسی پہاڑی سلسلے کو اپنے اونٹوں اور مال مویشیوں کی چراگاہوں کے طور پر پسند کیا اور اپنی بہنوں شہربانو، شاری، شلی، سومری، ھتّلی اور سمّی کے ساتھ اسی پہاڑی سلسلے میں رہنے لگیں اور یہیں اُن کا انتقال ہوا۔ جس پہاڑ پر گوہر، شہربانو اور دیگر بہنوں کی قبریں ہیں، وہ پہاڑ مول ندی کے کنارے کاٹھور کے علاقے میں واقع ہے۔ مول ندی میں آگے جاکر چار پانچ اور ندیاں شامل ہوکر وسیع تر ملیر ندی کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں ، جو کراچی شہر میں کورنگی سے آگے جاکر سمندر میں گرتی ہے۔ اسی مول ندی پر ایستادہ یہ پہاڑ، جس پر گوہر اور اس کی بہنوں کی قبریں ہیں ”گوربانءِ کوہ“ کے نام سے مشہور ہے(۴) اور یہ پہاڑ نہ صرف بلوچ تاریخ کا ایک اہم جز ہے، بلکہ کراچی کے تاریخی آثار میں شامل ہے۔
اسی پہاڑی سلسلے کی ایک اہم جگہ ”لَلّہ ءِ پڑ“ ہے، جو ایک عشقیہ داستان سے منسوب ہے۔ کلمتی اور بلپتی جنگ کے زمانے میں لَلّہ نامی ایک شخص نے اپنے رشتہ داروں میں، جو اُس وقت مکران کے باہو کؤر کے کنارے ”روپان“ نامی جگہ پر آباد تھے (۴) ، گراناز نامی خاتون سے شادی کی۔ ایک معرکے میں گراناز کے بھائی مارے گئے اور کسی نے جاکر گراناز کو یہ خبر پہنچائی کہ شدید جنگ میں للّہ میدان جنگ سے فرار ہوا اور تمہارے بھائی جنگ میں کام آگئے۔ بھائیوں کی موت اور للّہ کے فرار ہونے کی خبر سے گراناز سخت مایوس ہوئی اور اس نے اپنے زیورات کی قسم کھاتے ہوئے کہا کہ میں ہمیشہ اپنی سہیلیوں کے سامنے فخر کیا کرتی تھی کہ میرا شوہر جنگ میں ہراول دستے میں لڑتا ہوا مارا جائے گا، لیکن افسوس تم نے بلوچی روایات کو پامال کیا اور میدان جنگ سے فرار ہوئے۔ گراناز نے زیورات کی قسم کھاتے ہوئے للّہ سے ہمیشہ کے لیے علیحدگی کا اعلان کیا۔ یہ تمام داستان ایک طویل نظم پر مشتمل ہے۔ بعد میں اسی پہاڑی سلسلہ میں ایک طویل جنگ کے بعد للّہ نے گراناز کے بھائیوں کا بدلہ لیا۔ جس مقام پر آخری لڑائی ہوئی، اس مقام کو ”للّہ ءِ پِڑ“ کہا جاتا ہے، جو سپر ہائی وے سے شمال کی جانب پہاڑوں میں واقع ہے اور یہ جگہ اس عشقیہ داستان کا ایک اہم مقام ہے اور کراچی کے قدیم آثار میں شامل ہے۔
اسی پہاڑی سلسلے میں کلمتی، بلپتی اور جوکھیہ قبائل کے درمیان بھی طویل جنگیں ہوئیں۔ ان جنگوں کی نشانیاں مختلف شکلوں میں اس پہاڑی سلسلے اور قرب و جوار میں موجود ہیں۔ یہ نشانیاں کہیں چیدگ (چے دَگ) کے شکل میں ہیں اور کہیں چوکنڈی قبروں کی شکل میں۔ چیدگ پتھروں کو گول دائرے میں ایک دوسرے پر رکھ کر برجی یا مینار نما بنایا جاتا ہے۔ چیدگ ان بہادروں اور سورماؤں کی یاد میں بنایا جاتا ہے، جو مختلف جنگوں میں دشمن کے خلاف برسرپیکار ہوکر جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہوں۔
یا مقامِ جنگ اور لشکری گزرگاہوں کی نشانی کے طور پر یہ چیدگ بنائے گئے۔ اس کے علاوہ یہ چیدگ مشکل پہاڑی راستوں میں پانی کی نشانی کے طور پر بھی بنائے جاتے تھے۔ اس کا تعین چیدگ کے مقام سے کیا جاتا ہے، کہ وہ کسی جنگ کی نشانی ہے یا پھر لشکری گزرگاہ یا پھر انہیں پانی تک رسائی کے لیے بنایا گیا ہے۔
انہی جنگوں میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں اور قبائلی روایات کے امینوں کے لیے کراچی کے میدانی اور پہاڑی سلسلے میں واقع مختلف مقامات پر آپ کو منقش قبریں ملیں گی۔ ان قبروں کے طرز تعمیر کا انداز بلکل منفرد ہے. قبر کی ساخت سے آپ اس گورنشین کی اس وقت کی قبائلی حیثیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بہت ساری قبروں پر تیر و تپنگ کی تصویریں کندہ ہیں اور عورتوں کی قبروں پر خاص طور پر وہ کشیدہ کاری آپ کو نظر آئے گی، جس کے نمونے آج بھی بلوچ عورتوں کے لباس پر کڑائی کے شکل میں دیکھے جاسکتے ہیں اور ساتھ ہی ہاتھوں اور گلے میں پہننے والے زیورات کے نقوش بھی آپ کو ان قبروں پر کندہ ملیں گے۔ الغرض کہ یہ قبریں اس وقت کے قبائلی اور معاشرتی دور کی عکاس ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر علامات اور نشانیاں، جن میں خاص طورپر شاہ عبدالّطیف بھٹائی کا آستانہ بھی کراچی کی تاریخ کا روایتی حصہ ہیں۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مذکورہ بالا آثار، جن کا میں نے ذکر کیا، ان میں سے کئی نشانیاں مٹادی گئی ہیں۔ یہ نہ صرف ایک قومی المیہ ہے بلکہ یہ ایک تاریخی جبر بھی ہے۔ زندہ قومیں اپنے آثار اور روایتی نشانیوں کو محفوظ رکھتی ہیں، جبکہ ہم اس کے برعکس ہر چیز کو تباہ کردیتے ہیں. اس کا نتیجہ نہ صرف تاریخ کے مسخ ہونے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، بلکہ عام انسانی زندگی پر بھی اس کے انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جن روایتی نشانیوں یا آثار کا میں نے ذکر کیا، انہیں تباہ کرنے کے لیے نہ صرف منظم منصوبے بنائے جارہے ہیں بلکہ ان کو عملی شکل بھی دی جارہی ہے۔خاص طور پر میں ”للّہ ئے پڑ“ کا ذکر کروں گا، جو مسمار کر دیا گیا ہے اور مقامی لوگوں کا وہاں سے گزرنا بھی اب ناممکن بنادیا گیا ہے اور دوسری طرف شاہ لطیف کا آستانہ بھاری مشینوں کی زد میں ہے۔ ایک طرف ”DHA“ کے نام سے ان علاقوں کے آثاروں کو مٹانے اور تباہ کرنے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، تو دوسری طرف ”بحریہ ٹاؤن“کے نام سے تباہی کے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا رہا ہے۔ ان منصوبوں سے ”وائلڈ لائف“ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور بلند قامت پہاڑوں کو بارود سے توڑنے کا عمل، مقامی موسم اور آب و ہوا پر کیا رنگ دکھائے گا، مجھے اس کا علم نہیں، یہ بات ان شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ہی بہتر طور پر بتاسکتے ہیں، البتہ مجھے اتنا علم ضرور ہے کہ یہ منصوبے اس سرزمین کے قدیم باشندوں کی روایات پر شب خون مارنے کے مترادف ہیں اور تاریخ کے ساتھ المناک جبر کی بدترین مثال ہیں۔ ان نشانیوں کو بچانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
جس طرح کراچی میں انگریز کے خلاف گوریلاجنگ کا بانی چاکرء نوتک کی تاریخ کو دبایا گیا اور یہاں کی معروف شخصیتیں سہراب گوٹھ کے بانی سہراب اور ناتھا خان کو ان کے تشخص محروم کیا گیا۔اگر اربابِ دانش کے پاس اس کا کوئی حل ہو تو ہو، لیکن میرے پاس انہی محرومیوں کی فہرست میں چند اور محرومیوں میں اضافے کے سوا کچھ بھی نہ رہے گا۔ ہم شاید ماضی کے میوزیم میں بھی جگہ نہ پاسکیں۔
ان داستانوں سے متعلق نظموں کے نمونے (اردو ترجمہ)
میں ہمیشہ اپنی سہیلیوں سے فخریہ کہتی تھی
میرا شوہر میدان میں جب مارا جائے گا
ان جوانوں کے ساتھ جو
جنگ میں آگے آگے ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری موت پر نوحہ خوان سمّی کو بلاؤں گی
سمّی تجھے دولہاؤں کی طرح گیتوں سے نوازے
اور تجھے قبر میں نغموں کے سروں میں دفن کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن تونے اپنی دُرگوش نامی تلوار سے کوئی کارنامہ نہیں دکھایا،
مجھے زیورات کی قسم تم میرے باپ اور بھائی ہو (گراناز)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگ میں مرد اور نامرد پہچانے جاتے ہیں
مَردوں کے نشانیاں باقی رہتی ہیں اور
نامرد ہمیشہ شرمندہ اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے مولؔ کے دروں میں انہیں گھیر لیا
طاقت ور حسن ساتھیوں سمیت سامنے آیا
میں نے بیلہ کے شیر کو قتل کردیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہرے کنوؤں کے پتھر ریزہ نہیں ہوتے
مرد اپنا بدلہ ہمیشہ یاد رکھا کرتے ہیں
بلوچ کا بدلہ دو سو سال گزرنے کے باوجود
جوان نر ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا ہے
(للہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱-علامہ ابو الفضل (۸۸۹۱)۔آئین اکبری۔جلداول حصہ دوم (ترجمہ: مولوی محمد فدا
علی)ص۸۴۰۱
۲- فقیر شاد (۸۰۰۲)۔ میراث۔ ص۲۵
۳- گل خان نصیر۔ بلوچستان کی کہانی شاعروں کی زبانی
۴- ناکو فقیر محمد (زبانی روایت) شراپی میتگ
۵- پیرو یارمحمد آدم(زبانی روایت)
ناکو چاکر (زبانی روایت)
ناکو رودِن (زبانی روایت)