کابل – نیوزی لینڈ کی حاملہ صحافی نے کہا ہے کہ ان کے اپنے ملک کی جانب سے کورونا وائرس کی پابندیوں کے باعث ان کو ملک واپس آنے سے روکنے کے بعد وہ افغانستان میں پھنسی ہوئی ہیں اور انہوں نے مدد کے لیے طالبان سے رجوع کیا ہے
شارلٹ بلیز کے مطابق ”قرنطینہ قوانین کی وجہ سے مجھے اپنے وطن واپس آنے سے روکا گیا، جس کے بعد مجھے مدد کے لیے افغان طالبان سے رجوع کرنا پڑا“
نیوزی لینڈ ہیرالڈ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں شارلٹ بلیز کا کہنا ہے ”یہ بہت ستم ظریفی ہے کہ کبھی وہ طالبان کے خواتین کے ساتھ سلوک کے بارے میں سوال اٹھاتی تھیں اور اب وہ اپنی حکومت کے خواتین کے ساتھ رویے کے بارے میں سوال اٹھا رہی ہیں۔“
وہ اپنے کالم میں لکھتی ہیں ”جب طالبان ایک غیر شادہ شدہ، حاملہ خاتون کو محفوظ پناہ دیتے ہیں، اس سے آپ کا مؤقف کمزور ہوتا ہے“
اس حوالے سے نیوزی لینڈ کے کورونا وائرس ریسپانس کے وزیر کرس ہپکنز نے ہیرالڈ کو بتایا کہ انہوں نے حکام سے کہا ہے کہ کیا شارلٹ بلیز کے کیس میں مناسب طریقہ کار پر عمل کیا ہے، جسے ابتدائی طور پر دیکھنے سے لگتا ہے کہ معاملے کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتہائی سخت انتظامات کیے ہیں، نیوزیلینڈ حکام کے دعوے کے مطابق پچاس لاکھ کی آبادی کے ملک میں وبا کے دوران صرف باون اموات ریکارڈ ہوئیں
تاہم قومی سطح پر پابندی ہے کہ ملک کے اپنے شہری بھی ملک واپسی پر افواج کے زیر انتظام قرنطینہ ہوٹلوں میں دس روز علیحدگی میں گزاریں گے، جس کی وجہ سے وطن واپس آنے والے ہزاروں لوگ جگہ ملنے کے انتظار میں دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں
بیرون ملک برے حالات میں پھنسے شہریوں کی کہانیاں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اور ان کی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہی ہیں لیکن حاملہ صحافی شارلٹ بلیز کی صورتحال خاص طور پر کافی الگ ہے
گزشتہ سال امریکی افواج کے انخلا کی کوریج کے لیے وہ الجزیرہ کے لیے کام کر رہی تھیں اور انہوں نے طالبان سے ان کے خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک سے متعلق سخت سوالات پوچھ کر عالمی توجہ حاصل کی تھی
اپنے حالیہ کالم میں انہوں نے لکھا ہے ”جب میں ستمبر میں قطر گئی تو مجھے اپنے ساتھی کے ساتھ حاملہ ہونے کا معلوم ہوا، جو نیویارک ٹائمز کے ساتھ کام کرنے والے ایک فری لانس فوٹوگرافر ہیں“
انہوں نے اپنے حاملہ ہونے کو ایک معجزہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ڈاکٹرز کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ان کے بچے نہیں ہوسکتے، اب وہ مئی میں بچی کو جنم دیں گی
شارلٹ بلیز کا کہنا ”قطر میں بغیر شادی کے جنسی تعلقات غیر قانونی ہیں، اس لیے میں نے سوچا کہ مجھے واپس جانا چاہیے، میں نے کئی مرتبہ نیوزی لینڈ کے قرعہ اندازی کے نظام کے تحت بھی وطن واپس جانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکی“
انہوں نے مزید کہا ”میں نے نومبر میں الجزیرہ سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اپنے پارٹنر کے آبائی ملک بیلجیئم چلی گئی تھی، لیکن وہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکی، کیونکہ میں بیلجئم کی رہائشی نہیں تھی، اس کے بعد ہم دونوں کے پاس رہنے کے لیے واحد دوسری جگہ افغانستان تھی، کیونکہ میرے پاس صرف افغانستان کا ویزہ تھا۔“
شارلٹ بلیز نے کہا ”میں نے طالبان کے سینئر رہنما کے ساتھ بات کی، جنہوں نے مجھے بتایا کہ میں افغانستان میں آرام سے رہ سکتی ہوں“
شارلٹ بلیز نے بتایا کہ انہیں طالبان نے کہا کہ آپ لوگوں کو بتادیں کہ آپ شادی شدہ ہیں اور اگر کوئی سنگین معاملہ ہو تو ہمیں آگاہ کریں اور پریشان نہ ہوں
بلیز نے اپنے کالم میں لکھا: ’جب طالبان آپ کو، ایک حاملہ، غیر شادی شدہ خاتون، کو محفوظ پناہ گاہ کی پیشکش کرتے ہیں، تو آپ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کی صورتحال خراب چکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ میں نے افغانستان میں نیوزی لینڈ کے حکام کو 59 دستاویزات بھیجیں، لیکن انہوں نے ہنگامی واپسی کے لیے ان کی درخواست مسترد کر دی
نیوزی لینڈ کے قرنطینہ سینٹر اور قرنطینہ نظام کے مشترکہ سربراہ کرس بنی نے ہیرالڈ کو بتایا کہ شارلٹ بلیز کی ہنگامی درخواست اس شرط کے تحت نہیں آتی، جس کے مطابق وہ 14 دن کے اندر سفر کریں
انہوں نے کہا کہ حکام نے شارلٹ بلیز سے رابطہ کیا ہے اور ان سے مطلوبہ شرائط کے مطابق درخواست تیار کرنے کا کہا ہے
کرس بنی نے لکھا کہ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے اور نیوزی لینڈ کے مشکل میں پھنسے شہریوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی ٹیم کی ایک مثال ہے
بلیز کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ میں وکلا، سیاست دانوں اور تعلقات عامہ کے لوگوں سے بات کرنے کے بعد لگتا ہے کہ اب ان کا کیس پھر سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن ابھی تک انہیں گھر جانے کی منظوری نہیں ملی.