لاڑکانہ کا فوسلز، ونٹیج گاڑیوں، پرانے اسلحے اور گراموفون کا شوقین نوجوان

نیوز ڈیسک

لاڑکانہ – صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان احمر اکبر پھل، جو اپنے منفرد شوق کی وجہ سے جانے جاتے ہیں

ان کے ذوق اور جذبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے شوق کی وجہ سے سندھ کے کھیرتھر لے سنگلاخ پہاڑی سلسلے کے مختلف مقامات سے ڈائنوسار سمیت مختلف نوعیت کے کروڑوں سال پرانے فوسلز ڈھونڈتے ہیں

لاڑکانہ کے قریبی گاؤں وڈا پھل سے تعلق رکھنے والے احمر اکبر، جسے ہر فن مولا یا ہمہ جہت شخصیت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، انہوں نے تعلیم تو ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے شعبے میں حاصل کی، لیکن پیشے سے زمین دار ہیں

احمر سماجی برائیوں خصوصاً منشیات فروشی کی نشاندہی اور روک تھام کے لیے اب تک تیرہ سو سے زائد وڈیوز بنا کر ملک بھر میں متعلقہ انتظامیہ، حکام اور اداروں کو بھیج چکے ہیں

جیالوجی اور آرکیالوجی میں دیرینہ دلچسپی رکھنے والے احمر اکبر کا کہنا ہے کہ وہ سندھ کے مختلف مقامات سے کروڑوں سال پرانے فوسلز اکٹھے کر چکے ہیں

انہوں نے قدیم تہذیب موئن جو دڑو کنورژن سیل کے زیر اہتمام آرکیالوجی کے بارے میں متعدد ورکشاپس میں حصہ لیا، جہاں سے انہیں نہ صرف معلومات ملیں، بلکہ ان کی اس شعبے میں دلچسپی بھی گہری ہوئی

احمر کے دادا 1952ع میں بطور کلیکٹر ریٹائر ہوئے، جب کہ ان کے والد محکمۂ آبپاشی کے ایک سینیئر انجینیئر تھے اور سندھ کے مختلف مقامات پر تعینات رہے

انہیں مختلف منصوبوں پر کام کرنے کے دوران دور دراز علاقوں میں جانا پڑتا تھا اور یوں احمر کی مختلف غیر آباد یا کم آباد علاقوں تک رسائی آسان ہو گئی

احمر انٹرنیٹ اور ورک شاپس میں حاصل کردہ علم کی بنیاد پر خودکار کھوج کر کے مختلف فوسلز دریافت کر چکے ہیں

انہوں نے بتایا کہ ماہرینِ آثار قدیمہ کو جراسک پیرڈ نہ صرف چین، کینیڈا اور آسٹریا بلکہ پاکستان میں بھی ملا اور سندھ کے پہاڑی سلسلے کھیرتھر رینج اور سندھ بلوچستان کی پہاڑی سرحدی پٹی کے کئی علاقے اس میں شامل ہیں

انہوں نے بتایا کہ سندھ کے ضلع دادو کے علاقے جوہی میں لائم اسٹون، سینڈیمینٹری راک، گرینائیٹ کی فارمیشنز موجود ہیں، جہاں کا جائزہ لینے کے دوران انہیں بونی فش، پیڈیفائیڈ ووڈ، شیلز، سنیلز اور ڈائنوسار کے نچلے جبڑے کے فوسلز ملے، جنہیں سندھ میوزیم، پاکستان میوزیم سمیت شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور میر کے اینتھراپولوجی ڈپارٹمنٹ میں نمائش کے لیے بھی لے جایا جا چکا ہے

احمر کا کہنا ہے ”ماہرین ارضیات کے مطابق ایک ہزار سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت پر ساڑھے تین کروڑ سال تک رہنے پر جاندار چیز پتھر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”ان دریافتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ساڑھے تین کروڑ سال پہلے سندھ کے ان علاقوں میں کیا تھا، کون سے جانور اور مچھلیاں وغیرہ تھیں۔‘

اس حوالے سے اپنے دریافت کردہ فوسلز کے متعلق احمر کا کہنا تھا کہ انہیں بونی فش فوسل لائم اسٹون کی فارمیشن میں سندھ کے علاقے قبو سعید خان سے ملا، جبکہ گرینائیٹ فارمیشن سے انہیں درخت کے ٹکڑے کا فوسل ملا.

انہوں نے مزید بتایا کہ ’گیہوں کا فوسل رانی کوٹ سے چار کلومیٹر دور سے ملا۔‘

تاریخی نوادرات کے علاوہ احمر کے پاس قدیم اسلحہ، گاڑیاں اور گرامو فون سمیت رکارڈز کی شاندار کلیکشن موجود ہے، جن میں چھوٹے پاکٹ پسٹل، بیلجئیم کے پسٹل، ریوالور، برمنگھم کی بندوقیں ڈبلیو ڈبلیو گرینر، جرمنی کی رائفلز سمیت دیگر ہتھیار شامل ہیں

گرامو فون سمیت سینکڑوں رکارڈز کی کلیکشن کے متعلق احمر اکبر نے بتایا کہ ان کے پر دادا نے 1901ع میں انگلینڈ کی ’ہز ماسٹر وائس‘ کمپنی کا گرامو فون خریدا اور آج تک ان کا تقریباً ایک سو اکیس برس پرانا گرامو فون نہ صرف اصل حالت میں موجود ہے، بلکہ خوب بھی چلتا ہے

احمر نے اپنی ونٹیج گاڑیوں کے متعلق بتایا کہ ان کے پاس 1961ع کی دو واکس ویگن گاڑیاں اور 1964ع کی دو جیپیں ہیں

احمر کے مطابق ان کی اینٹیک کلیکشن کا کوئی مول نہیں، اگر ان کی کلیکشن پاکستان میوزیم میں رکھنے کے لیے کہا جائے تو وہ بخوشی بلامعاوضہ اپنی کلیکشن میوزیم کو دے دیں گے

ان کے ساتھ ساتھ احمر اکبر سماجی سرگرمیوں میں بھی خاصے سرگرم رہتے ہیں، وہ غریب مریضوں کی مدد کرتے ہیں، انہوں نے مختلف ہسپتالوں میں ڈائلاسس کی مشینوں کی تنصیب کے حوالے سے کام کیا. کورونا لاک ڈاؤن کے دوران وہ گھر گھر راشن پہنچانے میں بھی جٹے رہے، علاقے میں منشیات کے خلاف بھی وہ ہمیشہ سرگرم کردار ادا کرتے رہے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close