ڈجیٹل دور میں بھی اراضی کے رکارڈ کے لئے پٹواری نظام کو فوقیت حاصل

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پٹواری نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت کا ریئل اسٹیٹ ادارہ اراضی کے رکارڈ کو ڈیجیٹائز کرنے اور زمین کے حصول کے عمل کو مزید شفاف بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور اس مقصد کے لیے انیسویں ویں صدی کا قانون ہی استعمال کر رہا ہے

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی احتساب مہم کا ایک بنیادی نکتہ لینڈ مافیاز اور پٹواری نظام کا خاتمہ تھا جو ان کے خیال میں کرپشن کلچر کو پروان چڑھاتا ہے

تاہم اب سرکاری افسران کو رہائش فراہم کرنے کا ذمہ دار ادارہ اس حوالے سے مثال قائم کرنے کے بجائے 1894ع کے لینڈ ایکیوزیشن ایکٹ میں طے کردہ معیار کے تحت پٹواریوں کے ذریعے اراضی حاصل کر رہا ہے

فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) کے ایک سابق عہدیدار کے مطابق یہ ادارہ اپنے پراسیس کی کمپیوٹرائزیشن یا رکارڈ کی ڈیجیٹائزیشن میں دلچسپی نہیں رکھتا، کیونکہ روایتی طریقے کار سے مخصوص مفادات کو فائدہ پہنچتا ہے

جبکہ ایف جی ای ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل طارق رشید کا کہنا ہے کہ زمینی رکارڈ کی ڈیجیٹائزیشن کے لیے اتھارٹی پرعزم ہے

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس مقصد کے لیے تجاویز کی درخواست جاری کی گئی تھی، لیکن وہ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کوئی مناسب فرم تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے

بظاہر اس بات سے حکومتی پالیسی میں تضاد واضح طور پر نظر آتا ہے

یاد رہے کہ ستمبر 2021 میں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے لیے ڈیجیٹلائزڈ لینڈ رکارڈ سسٹم اور کیڈسٹرل میپ کے اجرا میں شرکت کی تھی، وہاں انہوں نے کہا تھا کہ ڈجیٹلائزڈ لینڈ ریکارڈ سسٹم نہ صرف لینڈ مافیا کو ختم کرے گا بلکہ شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں غیر قانونی اور بےترتیب تعمیرات کو بھی کنٹرول کرے گا

وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے ڈجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد اور سربراہ ڈجیٹل میڈیا ونگ عمران غزالی سے رابطہ کیا گیا تو دونوں نے کہا کہ وہ اس معاملے سے لاعلم ہیں کیونکہ یہ ان کے دائرہ کار میں نہیں ہے

البتہ ڈاکٹر ارسلان خالد نے اس بات سے اتفاق کیا کہ حکومت نے ڈجیٹل پاکستان پالیسی متعارف کروائی ہے اور لینڈ رکارڈ کی ڈجیٹائزیشن اس کا ایک لازمی حصہ ہے

انہوں نے کہا کہ تمام وزارتوں اور ڈویژنز سے کہا گیا ہے کہ وہ شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے کاموں کو ڈجیٹائز کریں

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ایف جی ای ایچ اے کے تحت اراضی کے حصول کے عمل کو ڈجیٹائز نہ کرنے کے معاملے کو مناسب فورم پر اجاگر کریں گے

واضح رہے کہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی پہلی بار 1989ع میں قائم کی گئی تھی اور بعد ازاں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسے موجودہ حیثیت دی گئی

اتھارٹی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق اس کے پاس سرکاری ملازمین کے لیے ہاؤسنگ اسکیموں کا اجرا کرنے، اسپانسر کرنے اور لاگو کرنے کا مینڈیٹ ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس ریٹائرمنٹ کے وقت یا اس سے پہلے اپنا گھر موجود ہو

یہ اتھارٹی بیوروکریسی، عدلیہ، وکلا اور صحافیوں سمیت دیگر افراد کے لیے رہائش فراہم کرتی ہے

ایف جی ای ایچ اے کے ایک حاضر سروس عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اتھارٹی بنیادی کاموں میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے بہت زیادہ قانونی چارہ جوئی میں الجھی ہوئی ہے، جس کا ایک بڑا حصہ اراضی کا حصول اور الاٹمنٹ ہے

حال ہی میں اتھارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے ایف جی ای ایچ اے کے سابق ڈائریکٹر آئی ٹی نجم علوی نے بتایا کہ اپنے دور ملازمت میں انہوں نے سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کے لیے متعدد تجاویز تیار کی ہیں، تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے اور ہاؤسنگ اتھارٹی کے بنیادی کاموں میں انسانی مداخلت کو کم کیا جا سکے

ایف جی ای ایچ اے کا آئی ٹی سیکشن سال 2000 میں پراپرٹیز کا ڈیٹا بیس بنانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور اسے 2020 میں باضابطہ طور پر اپ گریڈ کیا گیا تھا

نجم علوی کے مطابق جب وہ ایف جی ای ایچ اے میں خدمات انجام دے رہے تھے تب آئی ٹی سیکشن سات سے آٹھ ملازمین پر مشتمل تھا، جن میں دو ڈپٹی ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور کلرک شامل تھے

انہوں نے ادارے سے اپنی علیحدگی کی وجہ بتاتے ہوا کہا ”میں نے بنیادی کاموں کو کمپیوٹرائز کرنے، بنیادی ڈھانچے کو تیار کرنے اور سائبر سیکیورٹی کے لیے ڈیٹا سینٹر بنانے کے لیے کم از کم تیس تجربہ کار افراد پر مشتمل عملے کے ساتھ محکمے کی تنظیم نو کی تجویز پیش کی، لیکن میرے اعلیٰ افسران نے ان تجاویز پر کوئی توجہ نہیں دی“

ایف جی ای ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل نے نجم علوی کی ادارے سےعلیحدگی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ نجم علوی کا تعلق چونکہ کارپوریٹ سیکٹر سے ہے اس لیے وہ خود کو سرکاری شعبے میں ایڈجسٹ نہیں کر سکے

دوسری جانب ایف جی ای ایچ اے کے سینئر اہلکار نے بھی نجم علوی کے تحفظات کی تائید کی اور کہا کہ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کو غیر فعال رکھا گیا، جس کا مقصد بعض عہدیداروں کے ذاتی مفادات کو پورا کرنا تھا

ان کا مزید کہنا تھا کہ دستی طریقے سے اراضی کے حصول، ترقی اور دیگر کاموں کو کیے جانے سے اس عمل میں جوڑ توڑ کرنا آسان ہوجاتی ہے

تاہم ایف جی ای ایچ اے کے آئی ٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر عاصم امیر کے مطابق ان کے محکمے نے اتھارٹی کے قیام سے ہی تمام اراکین کا ڈیٹا بیس رکھا ہوا ہے

انہوں نے کہا ”اس وقت کئی دہائیوں پرانے پٹواری نظام کے ذریعے زمین کا حصول اور قیمت کا تعین کیا جارہا ہے، لیکن انہیں امید ہے کہ آٹومیشن کے لیے حالیہ اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور پرانا طریقہ کار آہستہ آہستہ متروک ہوجائے گا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close