واشنگٹن – امریکا نے ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں ایران کے سول جوہری پروگرام پر عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں۔ ایران کا اصرار اور شرط تھی کہ معاہدے میں واپسی کے لیے پہلے امریکا کو اپنی تمام پابندیاں ختم کرنا ہوں گی
امریکا نے گزشتہ روز ایران کے سول نیوکلیئر پروگرام پر عائد پابندیوں کو ختم کر دیا۔ پیر سات فروری کو ویانا میں ہونے والی بات چیت سے قبل، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے متعدد پابندیوں کے خاتمے کے لیے دستاویزات پر دستخط کیے
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے یہ قدم 2015ع میں ہونے والے ایران جوہری معاہدے کی جانب واپسی کا پہلا قدم ہے
ان پابندیوں کے خاتمے سے بیرونی ممالک اور کمپنیوں کو ایران کے بوشہر جوہری پاور اسٹیشن، اراک کے ہیوی واٹر پلانٹ، اور تہران کے ریسرچ ری ایکٹر میں امریکی پابندیوں کی زد میں آئے بغیر کام کرنے کی اجازت مل جائے گی
سن 2018ء میں ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکل جانے اور دوبارہ امریکی پابندیاں نافذ کیے جانے کے بعد، ایران نے بھی بتدریج اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کر دی تھی۔ اس نے اپنے بعض جوہری پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کی شرح میں اضافہ کر دیا تھا اور یہ اس جانب ایک قدم تھا جس کی ضرورت ایٹم بم بنانے کے لیے ہوتی ہے
ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2018 میں امریکا کو ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا اور ایران پر پابندیاں بحال کر دی تھیں
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کے مطابق ”حالیہ قدم صرف ایران کے سویلین جوہری پروگرام کے لیے استثنیٰ ہے“
اس استثنیٰ کے تحت غیر ملکی کمپنیوں اور ممالک کو ایران کے سول جوہری پروگرام میں عدم پھیلاؤ پر مبنی کسی قسم کی معاونت پر امریکی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے ایک رپورٹ کانگریس بھجوائی ہے، جس میں اس استثیٰ کی وجوہات بیان کی گئی ہیں
روئٹرز کے مطابق اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس استثنیٰ سے ایران جوہری معاہدے کی بحالی میں مدد ملے گی اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ ایران ان وعدوں پر عمل درآمد کر سکے، جو اس نے معاہدے میں کیے تھے
ساتھ ہی ساتھ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے ”اس استثنیٰ سے ایران کی جوہری سرگرمیوں کو کم کرنے اور امریکہ کے مقاصد کو حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی“
رپورٹ کے مطابق ”استثنیٰ کا مقصد ہرگز یہ نہیں لیا جانا چاہیے کہ ایسا ایران سے کسی قسم کے وعدے کے نتیجے میں کیا گیا۔“
ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ اس استثنیٰ کا بنیادی مقصد 2015 کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کو ممکن بنانا ہے
انہوں نے بتایا ”یہ استثنیٰ ویانا میں ایران کے جوہری پروگرام پر کنٹرول کے مذاکرات کے تحت کسی بھی نئے معاہدے کے لیے ضروری ہے۔“
ان کا کہنا تھا ”اس کے بغیر ایران کے جوہری پروگرام کی تکنیکی تفصیلات اور جوہری اسلحے سے متعلق کسی تیسرے فریق سے بات چیت ممکن نہیں۔“
واضح رہے کہ ویانا میں ہونے والے ایران جوہری مذاکرات سے قبل گذشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ کے سینیئر اہلکار نے بریفنگ کے دوران کہا تھا ”اہم سیاسی فیصلے لینے کا وقت آ چکا ہے“
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گذشتہ سال اپریل سے ویانا میں امریکا اور ایران کے درمیان بات چیت کے آٹھ ادوار ہوئے ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ اگلا دور کب ہوگا لیکن حالیہ پیش رفت کے بعد یہ جلد ہو سکتا ہے
اے ایف پی کے مطابق ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران جوہری معاہدے، جسے جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن کا نام دیا گیا تھا، پر مذاکرات آئندہ ہفتے دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں، جن میں پی فائیو پلس ون ممالک (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان، امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ جرمنی) شامل ہوں گے
اٹلانٹک کونسل کی باربرا سلیون امورِ ایران کی ماہر ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ امریکی استثنا ایک مثبت قدم ہے
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ضروری تھا اور یہ اچھی بات ہے کہ یہ کر لیا گیا ہے
ان کے مطابق ”گذشتہ امریکی انتظامیہ (یعنی صدر ڈونلڈ ٹرمپ) کی جانب سے ایران پر پابندیاں انتہائی احمقانہ قدم تھا“
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں یہ معاہدہ پی فائیو پلس ون (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان، امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ جرمنی) اور ایران کے درمیان ہوا تھا
اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنی یورینیم افزودگی اور ذخیرہ اندوزی پر پابندیاں قبول کرنے، متعدد جوہری مقامات پر تنصیبات کو بند کرنے یا ان میں ترمیم کرنے اور بین الاقوامی جوہری معائنہ کاروں کو تنصیبات کے دوروں کی اجازت دینے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بدلے میں ایران پر سے کئی بین الاقوامی مالیاتی پابندیاں ہٹا دی گئیں تھیں
طویل مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ جنوری 2016 میں طے پایا تھا
اس معاہدے پر باراک اوباما کے دورِ صدارت میں دستخط کیے گئے تھے، لیکن صدر ٹرمپ نے مئی 2018 میں امریکا کو اس معاہدے سے نکال لیا تھا
اس کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی اس مقررہ حد سے زیادہ کرنا شروع کی جس کی اسے معاہدے میں اجازت تھی اور بین الاقوامی معائنہ کاروں کے ساتھ اپنا تعاون کم کر دیا.