کراچی – آئی ایم ایف نے پاکستان کا ایک ارب ڈالرز کا قرض بحال کر دیا ہے۔ حکومت پاکستان شادیانے بجا رہی ہے لیکن عوام کا رد عمل مختلف دکھائی دیتا ہے۔ وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس موقع پر خوش ہوا جائے یا پریشانی کا اظہار کیا جائے۔ کیوں کہ ماضی میں ملنے والے قرضوں کے بعد کے نتائج زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہے ہیں
یاد رہے کہ دسمبر 2021 میں حکومت پاکستان نے سعودی عرب سے 4.5 ارب ڈالر قرض لیا۔ جس میں سے 3 ارب ڈالرز سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھنے کے لیے دیے گئے تھے۔ پاکستانی حکومت نے اس موقع پر قوم کو مبارکباد دی۔ لیکن یہ خوشی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکی
سعودی عرب سے تین ارب ڈالرز ملنے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر تقریبا 19 ارب ڈالرز تک پہنچ گئے تھے، جو کہ اب کم ہو کر 16 ارب 19 کروڑ ڈالرز رہ گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے زرمبادلہ ذخائر میں سے تقریباً دو ارب 81 کروڑ ڈالرز خرچ کر لیے ہیں۔ جو کہ سعودی عرب سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہے
واضح رہے کہ یہ رقم صرف اکاونٹس میں رکھنے کے لیے دی گئی تھی نہ کہ خرچ کرنے کے لیے۔ معاہدے کے مطابق سعودی حکومت کسی بھی وقت پاکستانی سرکار سے قرض واپس مانگ سکتی ہے اور پاکستانی حکومت 72 گھنٹوں کے اندر قرض ادا کرنے کی پابند ہوگی
معاملہ صرف یہاں پر نہیں رکا۔ سعودی عرب سے ملنے والے قرض کو خرچ کرنے کے بعد سرکار نے مزید قرض لینے کا فیصلہ کیا اور ایک ارب ڈالرز کے سکوک بانڈز جاری کیے تا کہ ڈالر کے ذخائر کی سطح کو برقرار رکھا جا سکے
سرکار نے ایک مرتبہ پھر جشن منایا اور آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے تقریباً دو ارب ڈالرز کے ٹیکسز لگائے
دو فروری کو آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالرز جاری کرنے کی منظوری دی۔ سرکار نے پھر جشن منایا اور مزید قرض لینے کے لیے چین کے آگے درخواست جمع کروا دی
اب وزیراعظم صاحب چین میں ہیں اور مزید قرض لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق چار ارب ڈالرز کے پرانے قرضوں کی مدت میں توسیع کی بھی درخواست کی جائے گی
امید یہی ہے کہ چین پاکستان کو قرض دے دے گا۔ لیکن کن شرائط پر قرض ملے گا، اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا
لیکن متوقع طور پر اس مرتبہ شرائط پہلے سے زیادہ سخت ہوں گی۔ کیوں کہ پاکستان پہلے ہی چین سے گیارہ بلین ڈالرز سے زیادہ قرض لے چکا ہے
سی پیک منصوبوں میں چینی کمپنیز کو بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے چینی حکومت کئی مرتبہ اپنا احتجاج رکارڈ کروا چکی ہے
پاکستانی حکومت کا خیال ہے کہ چائنا اور امریکا کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ان حالات میں مطالبات بآسانی منوائے جا سکتے ہیں
پاکستان کس قدر کامیاب ہوتا ہے اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام قرضوں سے پاکستانی عوام کو کیا فائدہ ملا۔ کیا مہنگائی میں کمی آئی؟ عام آدمی کی آمدن بہتر ہوئی؟ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوا؟ ڈالر کی قیمت نیچے آئی؟ بجلی کے بلز کم ہوئے یا روزگار کے مواقع بڑھے؟
بدقسمتی سے ان میں سے ایک بھی محاذ پر کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ ہر پاکستانی پر قرضوں کا بوجھ 49.1 فیصد سے بڑھ گیا ہے
مہنگائی کی شرح 13 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ جو کہ پچھلے دو سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ پچھلے پانچ ماہ سے لگاتار مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے
پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق ہول سیل پرائس انڈیکس 24 فیصد سے بڑھ گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں مزید مہنگائی ہو گی۔ شہروں میں فوڈ انفلیشن تقریباً 13.3 فیصد اور دیہاتوں میں تقریباً 11.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے
گوشت کی قیمت میں تقریباً 23 فیصد، سبزیوں کی قیمت میں 11.5 فیصد، پھلوں کی قیمت میں تقریبآ 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔بجلی کی قیمتوں میں 52 فیصد اضافہ رکارڈ کیا گیا ہے
اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ اب بھی ان میں مزید اضافہ متوقع ہے
حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے لیے ہر ماہ چار روپے فی لیٹر پیڑولیم لیوی بڑھانے کا معاہدہ کر رکھا ہے جو کہ جون 2022 تک جاری رہے گا
ایک اندازے کے مطابق پیٹرولیم لیوی بڑھانے سے مئی 2022ع تک فی لیٹر پیٹرول کی قیمت ایک سو اَسی روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ دوسری طرف عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں سات سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں، جس کا اثر بھی پاکستانی معیشیت پر پڑے گا
ان حقائق کے پیش نظر آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں
ان حالات میں عوام کو قرض ملنے پر مبارکبادیں دینا زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔ شاید اسی لیے عوام خوش نہیں ہیں
وہ جانتے ہیں کہ یہ قرض ان کے ٹیکس کے پیسوں سے ادا کیا جائے گا۔ حکومت مزید ٹیکسز لگائے گی۔ مہنگائی بڑھے گی اور آمدن کے ذرائع کم ہوتے جائیں گے۔ کیوں کہ آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر قرض بحالی کے ساتھ مزید شرائط رکھی ہیں جن میں بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسز کے اہداف میں اضافہ سر فہرست ہیں
ابھی تک صرف تین ارب ڈالر قرض ملا ہے۔ جس کے عوض ڈالر کی قدر 126 سے بڑھ کر 176 تک پہنچ گئی ہے۔ مزید تین ارب ڈالرز ملنا باقی ہیں۔ اگر حکومت پاکستان اسی پالیسی پر چلتی رہی تو خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 6 ارب ڈالرز ملنے تک ڈالر کی قیمت 225 روپے تک پہنچ سکتی ہے اور پاکستان میں مہنگائی کی شرح 17 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے
یہاں اس حقیقت کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ پچھلے مہینے تین سو پچھتر ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگنے کے اثرات ابھی تک اعداوشمار کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔ ممکنہ طور پر ماہ فروری کے اختتام پر ان کا اثر سامنے آ سکے گا اور ممکنہ طور پر مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ دو سال قبل جنوری 2020 میں مہنگائی کی شرح 14 فیصد سے زیادہ تھی۔ لیکن اس وقت شرح سود تقریباً 13 فیصد تھی
حکومت نے تین ارب ڈالرز ہاٹ منی کے نام پر تقریباً 12.5 فیصد شرح سود پر لے رکھے تھے۔ آج شرح سود 9.75 فیصد ہے اور کوئی ہاٹ منی بھی نہیں ہے لیکن مہنگائی 13 فیصد تک بڑھ گئی ہے
اگر تکنیکی بنیادوں پر دیکھا جائے تو آج کی 13 فیصد مہنگائی دو سال قبل کی 14 فیصد مہنگائی سے زیادہ ہے۔ اگر آج بھی شرح سود 13 فیصد ہوتی تو مہنگائی کی شرح 17 فیصد ہو سکتی تھی
اسی لیے عوام حکومتی وعدوں، دعوں، نعروں اور مبارکبادوں سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود مہنگی سبزیاں، دالیں، چینی، آٹا، تیل، دودھ اور پنیر سمیت کھانے پینے کی ہزاروں اشیا بیرون ملک سے درآمد کیوں کرتا ہے
فوڈ انفلیشن بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ اشیائے خوردونوش کی پیداوار اور مینیمنجٹ میں کمی ہے۔ پاکستان کی آمدن کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ زراعت سے منسلک ہے لیکن اس شعبے میں کارکردگی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک چین، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں فی ایکڑ پیداوار پاکستان کی نسبت دو گنا زیادہ ہے۔ جس کی وجہ کاشتکاری کے جدید طریقوں کو اپنانا ہے۔ نئی تکنیکوں کو اپنا کر پاکستان نہ صرف کھانے پینے کی ملکی ضروریات پوری کر سکتا ہے بلکہ بآسانی برآمد بھی کر سکتا ہے
پام آئل کی پیداوار کے لیے صوبہ سندھ کی زرخیز زمین پر کاشتکاری کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح خوردنی تیل کے لیے سورج مکھی کی بڑے پیمانے پر کاشت کی جا سکتی ہے
گندم اور گنے کی فصل کی پیداوار تین گنا تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ بے موسمی سبزیاں اور پھل اگائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان ایتھوپیا سے 22 ملین ڈالرز کی سبزیاں درآمد کرتا ہے جبکہ اس کے پاس پاکستان جتنا زرخیز رقبہ بھی نہیں ہے
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایتھوپیا کرسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا؟
عوام سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی خوشحالی نہ تو آئی ایم ایف کے پاس ہے اور نہ ہی چین کے پاس ہے۔ اگر حکمران پاکستانی عوام کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ قرض ملنے کی مبارکبادیں نہ دیں بلکہ ملک کی زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کریں.