کوئٹہ – اس وقت بلوچستان کے کوئٹہ، مستونگ، پشین اور قلات علاقوں کے علاوہ پاکستان کے کئی سرد علاقوں میں تجرباتی طور پر زعفران کی کاشت کی جارہی ہے، جن میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور اسکردو اور گلگت شامل ہیں
واضح رہے کہ زعفران کو دنیا کا سب سے قیمتی مصالحہ سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں دو اسپین اور ایرانی زعفران کی بہت زیادہ مانگ ہے، پاکستان میں اگائی جانے والی زعفران ایرانی قسم ہے
اس حوالے سے زرعی یونیورسٹی کوئٹہ کے ڈائریکٹر اسپیشل کروپ ڈاکٹر محمد شکیل کا کہنا ہے کہ ایرانی ویرائٹی کو ’سرگل یا نگین‘ کہا جاتا ہےاور اس کا بوٹینکل نام ’کروکس سیویٹس‘ ہے
زعفران بنیادی طور پر جامنی پھولوں کا زر دانہ یا اسٹگما ہوتا ہے، جسے پھولوں کی پتیوں کو الگ کر کے نکال لیا جاتا ہے۔ یہ ہی زردانہ بازار میں زعفران کے طور پر بیچا جاتا ہے، جو کھانوں، بیوٹی کریموں اور ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے تیز نارنگی رنگت، خوشبو اور ذائقہ کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے
بلوچستان میں سب سے پہلے زرعی یونیورسٹی کوئٹہ کے سپیشل کروپ ڈپارٹمنٹ میں زعفران کی تجرباتی فصل کاشت کی گئی تھی
ڈاکٹر شکیل نے بتایا: ’جب ہمیں کامیاب نتائج حاصل ہوئے تو ہم نے کاشتکاروں کو زعفران کے بلب فراہم کیے۔ تاکہ وہ اس کی کاشت کر کے زیادہ منافع حاصل کریں۔ پچھلے تین سالوں نے ثابت کیا ہے کہ بلوچستان کے سرد علاقوں میں اس کی کاشت کامیاب رہی ہے۔‘
ڈاکٹر شکیل نے بتایا کہ بلوچستان کے ٹھنڈے علاقے زعفران کی کاشت کے لیے بہترین ہیں”ہم نے دیکھا ہے کہ کسان دو سے تین سالوں میں ہی اچھی فصل اگا رہے ہیں اور انہیں مناسب منافع بھی ملا ہے۔“
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زعفران لگانا بھی آسان ہے اور پانی کی بھی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہوتی
ضلع قلات کی تحصیل منگوچر میں کئی کسان پچھلے تین سالوں سے زعفران کی فصل اگا رہے ہیں۔ ان کسانوں میں سے ایک پچاس سالہ کسان احمد نواز بھی ہیں
بلوچستان یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے والے احمد نواز کا کہنا ہے کہ یہاں کے مقامی لوگ کھیتی باڑی کے شعبے سے ہی منسلک ہیں اور زیادہ تر ٹماٹر، پیاز، شلجم اور دیگر سبزیاں آگاتے ہیں۔ لیکن دو تین سالوں سے چند کاشت کاروں نے زعفران کا تجربہ کیا، جو کامیاب ہوا ہے
احمد نے بتایا کہ منگوچر میں پانی ضرور آتا ہے لیکن صرف چھ گھنٹے اور بجلی یہاں نہیں آتی۔ یہاں پانی کی قلت رہتی ہے کیونکہ آٹھ سو سے نو سو فٹ پر پانی نکلتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ زعفران کی کاشت کے لیے قلات اور ملحقہ علاقے سازگار ثابت ہوں گے
احمد چھوٹے پیمانے پر زعفران کی کاشت کر رہے ہیں۔ انہیں زعفران کے بلب زرعی یونیورسٹی کوئٹہ سے ملے
انہوں نے بتایا کہ اسے بوائی کے لیے 35 سیلسیئس سے کم درجہ حرات درکار ہوتی ہے، اس لیے جب اگست کے مہینے میں درجہ حرارت گرنے لگتا ہے تو اس کی بوائی کی جاتی ہے
احمد نواز نے بھی اگست کے آخر میں زعفران کے بلب لگائے تھے۔ عام طور پر پودوں میں چھ سے آٹھ ہفتوں میں پھول آنے لگتا ہے۔ یعنی اگست میں کی جانے والی بوائی سے اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں پھول آنے لگتے ہیں
احمد نواز کو پچھلے سال کی نسبت اس سال زعفران کی اچھی مقدار حاصل ہوئی ہے، جسے انہوں نے پھولوں سے الگ کر کے قدرتی انداز میں یعنی سائے میں سکھایا اور پھر کوئٹہ اور ملحقہ مارکیٹوں تک پہنچایا ہے
اب احمد نواز کا ارادہ بڑے پیمانے پر زعفران کاشت کرنے کا ہے، تاکہ زیادہ مقدار میں زعفران حاصل کرکے بہتر منافع حاصل کر سکیں
احمد پچھلے سال تسلی بخش منافع نہیں حاصل کر سکے تھے۔ ان کے مطابق ایک تو فصل کم ہوئی تھی اور قرب و جوار میں اس کی زیادہ مارکیٹ نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کی زعفران صرف کوئٹہ شہر کی دکانوں تک پہنچ سکی
انہوں نے کچھ اپنے پاس رکھ لی اور کچھ عزیزوں میں بانٹ دی۔ وہ اب چاہتے ہیں کہ فصل زیادہ اچھی ہو اور وہ اسے اندرون ملک اور ملک سے باہر بھیجیں
زعفران کی کاشت کے حوالے سے ڈاکٹر شکیل چند اہم مشورے دیتے ہیں۔ ان کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ایک کلو زعفران حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس ڈیڑھ لاکھ پھول ہوں، لہٰذا یہ ایک صبر آزما کام ہے
اگر کوئی بھی کسان چند بنیادی باتیں جان لے گا تو اچھی پیدا وار حاصل کر سکتا ہے، جیسے لگانے جانے والے بلب کا وزن دس سے بارہ گرام ہونا چاہیے۔ اس سے کم وزن کے پودوں میں پھول نہیں آتے
کاشت کار کو اس لیے ایک سے دو سال انتظار کرنا پڑتا ہے کہ فارم پر کھلنے والے پھول زیادہ تعداد میں کھلیں اور یہ جب ہی ممکن ہے جب زیادہ بلب ہوں اور ان کا وزن بھی اچھا ہے، تاکہ زیادہ زعفران حاصل کیا جاسکے اور آپ کی فصل کلو ڈیڑھ کلو اترے
جاوید اسد اللہ وادی نیلم میں پھولوں کے کاشت کار ہیں۔ وہ 2000ع سے زعفران کی کاشت کر رہے ہیں۔
وہ زعفران کی کاشت کا قصہ کچھ اس طرح سناتے ہیں کہ انہوں نے کییاں شریف کے مقبروں پر زعفران لگی دیکھی، جس سے خیال آیا کہ انہیں بھی دیگر پھولوں کے ساتھ زعفران کی کاشت کرنی چاہیے کیونکہ ان پھولوں کے لیے ماحول ساز گار ہے
پاکستان میں تو زعفران کے بلب موجود نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے 85 بلب منگا کر پہلی بار کاشت کا تجربہ کیا۔ اس سارے عرصے میں انہیں سب سے اچھی فصل 2016ع میں ملی، جس کی مقدار ڈیڑھ پاو کے قریب تھی
انہوں نے کہا: ’جہاں تک مارکیٹنگ کی بات ہے تو یہ لاہور ، راولپنڈی اور بڑے شہروں میں آسانی سے بک جاتی ہے۔‘
انہوں نے احمد نواز اور ان جیسے دیگر زعفران کے کاش کاروں کو مشورہ دیا کہ وہ ہمدرد اور قرشی جیسے اداروں کو بھی اچھی قیمت پر زعفران فروخت کر سکتے ہیں.