خانیوال – صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے تشدد کر کے ایک شخص کو ہلاک کیا ہے
تفصیلات کے مطابق ہفتے کو یہ واقعہ جنگل ڈیرہ کے گاؤں میں پیش آیا، جہاں اعلانات کے بعد سیکڑوں مقامی افراد مغرب کی نماز کے بعد جمع ہونے لگے
ہفتہ کے روز گاؤں جنگل ڈیرہ میں مغرب کی نماز کے بعد اس طرح کے اعلانات ہوئے کہ ایک شخص نے قرآن کے اوراق پھاڑ کر انہیں نذرِ آتش کردیا، اعلانات سن کر سیکڑوں مقامی افراد جمع ہوگئے
’مقامی افراد نے پہلے اس شخص کو درخت سے لٹکایا اور پھر اس کو اینٹوں اور پتھروں سے مارتے رہے جب تک وہ ہلاک نہیں ہوا۔‘
واقعے کے حوالے سے موجود عینی شاہد نصیر میاں نے بتایا تھا کہ شام کے وقت انھوں نے اچانک شور سنا اور موقعے پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ایک شخص پر اینٹوں اور پتھروں کی بارش کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ انتہائی مشتعل تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ اس شخص نے قران پاک کی مبینہ توہین کی ہے۔ اس کے بعد اس شخص کی لاش کو اٹھا کر درخت کے ساتھ لٹکا دیا گیا تھا۔ پولیس موقع پر پہنچی تو مشتعل ہجوم نے پولیس پر بھی پتھراؤ شروع کر دیا۔ اس پتھراؤ سے پولیس کے کچھ اہلکار معمولی جبکہ ایک اہلکار زیادہ زخمی ہوا۔‘
نصیر میاں کے مطابق ’تشدد کا نشانہ بننے والے شخص کی لاش کو پولیس کافی دیر بعد وہاں سے لے کر جانے میں کامیاب ہو سکی تھی۔‘
اطلاعات کے مطابق ملزم نے اپنی بے گناہی کے دعویٰ کیا تھا اور پولیس کی حراست میں تھا، تاہم پولیس اسٹیشن کے باہر مشتعل ہجوم کی موجودگی کے باوجود اس کو جانے کی اجازت دی گئی
ایک عینی شاہد کے مطابق پولیس ٹیم نے گاؤں پہنچ کر ملزم کو حراست میں لے لیا تھا، لیکن ہجوم نے اسے ایس ایچ او کی حراست سے چھین لیا
تاہم تازہ اطلاعات ہیں کہ پولیس نے واقعے کا مقدمہ 33 نامزد اور 300 نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا ہے۔ پولیس کی جانب سے 62 ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے
پنجاب پولیس کے مطابق واقعے کی ابتدائی رپورٹ وزیراعلی پنجاب کو پیش کر دی گئی ہے اور پولیس نے ملزمان کو پکڑنے کے لیے رات گئے مختلف مقامات پر 120 سے زائد چھاپے مارے ہیں اور مزید افراد کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں
خانیوال سے صحافی قلزم بشیر احمد کے مطابق واقعے میں ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت مشتاق احمد ولد بشیر احمد کے نام سے ہوئی ہے۔ وہ قریبی گاؤں بارہ چک کے رہائشی تھے اور ان کی میت ان کے سوتیلے بھائی نے وصول کرلی ہے
قلزم بشیر احمد کے مطابق ’بارہ چک کے رہائشیوں نے بتایا ہے کہ ملزم کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اور وہ کئی کئی دن گھر سے باہر رہتے تھے۔ ذہنی توازن درست نہ ہونے کی بنا پر ان کی اہلیہ نے بھی چار سال قبل ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور بچے بھی اپنے ہمراہ لے گئی تھیں۔‘
ہلاک ہونے والے شخص کے بارے میں ابتدائی طور پر ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ یہ شخص اس واقعہ سے قبل اور ہفتے کے دن سے پہلے علاقے میں نہیں دیکھا گیا تھا
کچھ مقامی لوگوں نے پولیس کو بتایا کہ مذکورہ شخص ہفتے کے روز سارا دن بھیک مانگتا رہا تھا
خانیوال میں ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کو تشدد کر کے قتل کرنے پر وزیراعظم عمران خان نے مشتعل ہجوم کی جانب سے کسی شخص کو تشدد کر کے قتل کرنے کے واقعات کو سختی سے کچلنے کا عزم ظاہر کیا ہے
واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کسی فرد/گروہ کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش قطعاً گوارا نہیں کی جائے گی
اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے مزید کہا کہ ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے قتل کے واقعات کو نہایت سختی سے کچلیں گے
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ میں نے آئی جی پنجاب سے میاں چنوں واقعے کے ذمہ داروں اور فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات طلب کرلی ہیں
واقعے پر ردِ عمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ اگر معاشرے میں اسکول، تھانوں اور منبر کی اصلاح نہ ہوئی تو بڑی تباہی کے لیے تیار رہیں
ان کا کہنا تھا کہ میں نے بارہا اپنے نظام تعلیم میں تباہ کن شدت پسندی کی جانب توجہ دلائی ہے، سیالکوٹ اور میاں چنوں جیسے واقعات عشروں سے نافذ تعلیمی نظام کا حاصل ہیں یہ مسئلہ قانون کے نفاذ کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تنزلی کا بھی ہے
خیال رہے کہ ہجوم کے تشدد کے حالیہ واقعے سے محض دو ماہ قبل ہی ایک سری لنکن منیجر کی سیالکوٹ میں فیکٹری ورکرز کے ہاتھوں تشدد سے موت کا واقعہ پیش آیا تھا جس نے بین الاقوامی توجہ حاصل کرلی تھی
ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سخت ڈسپلن رکھنے والے پریانتھا کمارا کو مذہبی جلسے میں شرکت کی دعوت والا پوسٹر ہٹانے پر توہین مذہب کا الزام لگا کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ان کی لاش کو آگ لگادی گئی تھی.