کراچی – کرونا وائرس کی وبا کے دوران کئی لوگوں نے گھروں تک محدود ہو جانے کے بعد تنہائی ختم کرنے کے لیے انٹرنیٹ کی دنیا کا سہارا لیا، تاہم ان میں سے اکثر کو آن لائن فراڈ کا سامنا کرنا پڑا
یوں تو محبت کے نام پر لوگوں کو آن لائن فراڈ میں پھنسانے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں، لیکن وبا کے دوران اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وبا کے دوران دھوکہ دینے والے افراد نے کرونا وائرس کے قواعد و ضوابط کی آڑ میں متاثرین سے نہ ملنے کا بہانا بھی بنایا
امریکا کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن کا کہنا ہے کہ فراڈ کرنے والوں میں سے کسی نے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آنے کی وجہ دی، تو کسی نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے لگنے والی سفری پابندی کو وجہ بنایا
اسی قسم کے فراد سے متاثر ہونے والے ایک شخص نے آگاہی پھیلانے والے ادارے ”سائلنٹ وکٹم نو مور“ کو بتایا ہے کہ کرونا وائرس کے اقدامات کی بنا پر ان کی ’گرل فرینڈ‘ نے ان سے تعلق ختم کر دیا
اس شخص نے اپنے تئیں اپنی گرل فرینڈ کے بارے میں جاننے کی جب کوشش کی تو پتہ چلا کہ جو تصاویر بھیجی گئی تھیں، وہ کسی اور کی تھیں
تاہم تب تک متاثرہ شخص نے ویزا فیس اور دیگر اخراجات پر چار لاکھ ڈالر خرچ کر دیے تھے
امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن کے مطابق 2021ع میں 54 کروڑ 70 لاکھ ڈالر ’رومینس اسکیم‘ میں چوری ہوئے ہیں
یہ 2020ع کے دوران ’رومینس اسکیم‘ میں چوری ہونے والی رقم سے 80 فیصد زیادہ ہے
‘سوسائٹی آف سٹیزنز اگینسٹ رلیشنشپ اسکیمز’ کے بانی ٹم مکگنیز کا کہنا ہے کہ آن لائن دھوکہ دہی کے واقعات میں اضافہ اکیلے پن کا نتیجہ ہے، اور اس کی ایک وجہ انٹرنیٹ تک باآسانی رسائی بھی ہے، جو وبا کے دوران سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوئی ہے
ٹم مکگنیز کہتے ہیں”اس قسم کی ہیرا پھیری مہارت کا کام ہے۔ دھوکہ دینے والا یا والی عام بات چیت سے شروع کرتے ہیں، جس دوران وہ متاثرہ شخص کو اپنی باتوں میں لانے کا ہر طریقہ اپنا چکے ہوتے ہیں“
امریکی ایئرفورس کی سابق افسر ڈیبی مونٹگو میری جانسن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’انہوں نے سالوں تک اس بات کو سامنے نہیں آنے دیا کہ ایک شخص نے ان سے دس لاکھ ڈالر چوری کیے تھے۔‘
ڈیبی مونٹگومیری کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا تھا وہ شخص ان سے محبت کرتا ہے
ڈیبی نے کہا ”میں نے اس شخص سے بات چیت اپنے شوہر کے انتقال کے بعد شروع کی تھی، کیونکہ مجھے کسی کی ضرورت تھی“