اپوزیشن کےجہانگیر ترین کی جانب بڑھتے قدم، کیا پی ٹی آئی کے قدم لڑکھڑانے لگے؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی کوششوں کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے ساتھ اپوزیشن کی بڑھتی ملاقاتوں کی اطلاعات کی وجہ سے حکمران جماعت پریشان دکھائی دیتی ہے

واضح رہے کہ نو جماعتی حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے پر تول رہی ہیں

تاہم فی الحال وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر یا سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف ایسے کسی اقدام پر غور نہیں کیا جارہا

اگرچہ حکومتی اراکین کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے ساتھ جہانگیر ترین کی مبینہ طور پر خفیہ ملاقات کو مسترد کیا جارہا ہے، لیکن اس پیشرفت سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت واقعی اپوزیشن کے کیمپ میں جاری ہلچل سے چوکنا ہوچکی ہے، جس کا خاص طور پر مرکز جہانگیر ترین سے متعلق اپوزیشن کی جاری سرگرمیاں ہیں

ذرائع نے بتایا کہ جہانگیر ترین، ان کے گروپ کے ارکان اور حکومتی اتحادیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے اور اس کی اطلاع پارٹی کے سرپرست اعلیٰ کو دی جا رہی ہے

ذرائع کا کہنا ہے کہ خاص طور پر جہانگیر ترین کے معاملے میں حکومت مخمصے کا شکار ہے، اگر حکومت چینی اسکینڈل میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ذریعے ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے دوبارہ پوچھ گچھ کرتی ہے تو اس کا نتیجہ جہانگیر ترین کے حامی تقریباً دس اراکین قومی اسمبلی اور تیس اراکین پنجاب اسمبلی کی بغاوت کی صورت میں سامنے آسکتا ہے

حکومت کو خدشہ ہے کہ اب اگر اس تمام صورتحال میں حکومت محض تماشائی بنی رہی تو اپوزیشن باآسانی جہانگیر ترین کے ساتھ معاملات طے کر سکتی ہے، جس کا نتیجہ یقیناً وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نکل سکتا ہے

دوسری جانب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف کے ساتھ جہانگیر ترین کی مبینہ ملاقاتوں کی تصدیق کسی بھی جانب سے نہیں کی گئی، لیکن واضح رپے کہ اب تک ان اطلاعات کی تردید بھی کسی نے نہیں کی

تاہم وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جہانگیر ترین کی اپوزیشن کے ساتھ ملاقاتوں کو مسترد کر دیا اور امید ظاہر کی کہ ان کے ساتھی اور پارٹی رہنما جہانگیر ترین پی ٹی آئی کو کبھی نقصان نہیں پہنچائیں گے

پنڈ دادن خان میں میڈیا سے گفتگو کے دوران جب فواد چوہدری سے پوچھا گیا کہ کیا جہانگیر ترین، پی ڈی ایم کی متوقع تحریک عدم اعتماد کی حمایت کر رہے ہیں، تو ان کا کہنا تھا ”میرا جہانگیر ترین صاحب کے ساتھ احترام کا تعلق ہے، جہاں تک میں انہیں جانتا ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ لیں گے، جس سے پارٹی کو نقصان پہنچے، وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہی رہیں گے“

جہانگیر ترین کے تحفظات دور کرنے کے لیے وزیر اعظم یا کسی اور وزیر کی جہانگیر ترین سے ملاقات کرنے کے ارادے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا ”مجھے ان کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتوں کے بارے میں معلوم نہیں، لیکن ہمارے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور ہم ان کے ساتھ کسی خصوصی ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے“

وفاقی وزیر کا کہنا تھا ”جہانگیر ترین کے حامی پارلیمینٹیرینز بھی تجربہ کار سیاست دان ہیں اور وہ تحریک انصاف سے کسی ایسی چیز کے لیے الگ نہیں ہوں گے، جس کا مستقبل غیر یقینی ہو“

جہانگیر ترین گروپ اور حکومت کے اتحادیوں کی ایجنسیوں کے ذریعے نگرانی سے متعلق سوال پر انہوں نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا کیونکہ اس طرح کی نگرانی غیر قانونی ہے

تاہم ترین کیمپ میں شامل ذرائع نے بتایا کہ ”پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نے اپنے پتے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں“

انہوں نے کہا ”ایک بات یقینی ہے، گروپ اراکین میں سے کوئی بھی جہانگیر ترین کو الوداع کہنے کے لیے تیار نہیں ہے اور یہ بات تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں بات چیت کے لیے ان کی طاقت ہے“

انہوں نے کہا ”موجودہ حالات میں وزیر اعظم عمران خان کے لیے صورتحال اچھی نظر نہیں آ رہی“

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے اعلیٰ رہنما جہانگیر ترین کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے خواہشمند تھے، لیکن چونکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ ایک اہم چیز سمجھا جاتا ہے، اس لیے پارٹی کو یقین ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کی حتمی منزل یہ ٹکٹ ہوگی

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے ایک رہنما کا خیال ہے کہ ابھی بہت سے مراحل طے ہونا باقی ہیں، کچھ کہنا قبل از وقت ہے، ”ممکن ہے جہانگیر ترین گروپ پی پی پی کو اگلی حکومت بنانے کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھتے ہوئے ساتھ مل جائے۔“

صرف وزیر اعظم کو ہٹانے پر توجہ مرکوز رکھنے کے حوالے سے پی ڈی ایم میں شامل ذرائع نے کہا کہ مرکزی اپوزیشن جماعتیں (مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی-ایف) اصولی طور پر صرف وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے پر متفق ہیں

انہوں نے کہا ”اپوزیشن خصوصی طور پر اس منصوبے پر کام کر رہی ہے اور ایک بار جب اس نے جادوئی نمبر (مطلوبہ تعداد) حاصل کر لیا تو وہ اس پر عمل درآمد کرنے میں دیر نہیں کرے گی“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close