’سوئز سیکرٹس‘: ’ناجائز‘ دولت کو رازداری سے چھپانے کا الزام، جنرل ضیاالحق کے انٹیلیجنس سربراہ کا نام بھی شامل

ویب ڈیسک

برلن – بین الاقوامی نجی بینک ’کریڈٹ سوئز‘ کے صارفین کے اکاؤنٹس کی خفیہ معلومات پر مشتمل ’دی سوئز سیکرٹس‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بینک نے مبینہ طور پر دنیا بھر سے ایسے افراد کی دولت کو رازداری سے چھپائے رکھا جو کرپشن، منی لانڈرنگ اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے سنگین جرائم میں ملوث تھے

یہ انکشافات جرمنی کے اخبار ’سوڈوئشے زیتنگ‘ کی جانب سے ایک سو ارب ڈالر مالیت کے اُن اٹھارہ ہزار بینک اکاوئنٹس کی تفصیلات کا حصہ ہیں، جو سوئٹزر لینڈ کے کریڈٹ سوئز بینک کا حصہ تھے

ان اکاوئنٹس کی معلومات اور تفصیلات پر مبنی ’دی سوئز سیکرٹس‘ کی تحقیقات ’آرگنزائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ (او سی سی آر پی) کے تحت جاری کی گئی ہیں، جن میں جرمنی کے اخبار کے ساتھ دنیا بھر سے تحقیقاتی صحافیوں اور تنظیموں نے حصہ لیا تھا

رپورٹ کے مطابق آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) کے تعاون سے کی جانے والی تحقیقات میں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے سینتالیس مختلف اداروں کو متحد کیا گیا ہے، جن میں فرانس کے لمونڈ، امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز، برطانوی اخبار گارڈین بھی شامل ہیں

پراجیکٹ کے مطابق یہ معلومات انہیں خفیہ طریقے سے دی گئیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سوئٹرز لینڈ کے اس بینک میں دنیا بھر سے مبینہ طور پر منی لانڈرنگ، کرپشن اور منشیات اسمگلنگ سے حاصل کیے گئے پیسے رکھے گئے، جن کے پیچھے کئی نامور شخصیات کا نام آتا ہے

’دی گارڈین‘ اخبار میں شائع ہونے والی سوئز سیکرٹس رپورٹ کے مطابق اس بینک کے زیادہ تر کلائنٹس مصر، وینیزویلا، یوکرین اور تھائی لینڈ سے تعلق رکھتے ہیں

اس معاملے پر سوئٹزر لینڈ کے بینک کریڈٹ سوئز نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ او سی سی آر پی کی رپورٹ میں غلط معلومات ہیں جو سیاق و سباق سے ہٹ کر ہیں اور ادھوری تفصیلات پر مبنی ہیں

واضح رہے کہ او سی سی آر پی کی رپورٹ کے مطابق اس بینک میں کئی مجرموں نے بھی اکاوئنٹ کھولے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بینک نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی

بینک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے ان تمام اکاوئنٹس کا جائزہ لیا ہے جن کے متعلق معلومات اس رپورٹ میں عام کی گئی ہیں

بینک کے مطابق ان اکاؤنٹس میں سے 90 فیصد بند ہو چکے ہیں اور 60 فیصد ایسے ہیں جو 2015 سے قبل ہی بند ہو چکے تھے

بینک کے مطابق سوئز سیکرٹس کا مقصد صرف کریڈت سوئز بینک ہی نہیں بلکہ سوئٹزر لینڈ کے مالی نظام کو نشانہ بنانا ہے، جس میں گزشتہ چند برسوں میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں

خفیہ اداروں کے سربراہان سے جڑے مبینہ اکاؤنٹس

اس رپورٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے اس بینک میں دنیا کی پندرہ خفیہ ایجسنیوں کے سربراہان یا ان کے رشتہ داروں کے اکاؤنٹس تھے، جن میں سے پاکستان، مصر، عراق، یمن اور اردن کے انٹیلیجنس چیفس کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ افراد امریکا کے اتحادی سمجھے جاتے تھے. ان کی جانب سے سوئس بنک میں اکاؤنٹس کھلوانے اور ان میں رقوم کی منتقلی کا وقت بھی معنی خیز ہے

دی سوئز سیکرٹس میں جہاں دنیا بھر سے نامور شخصیات کے نام شامل ہیں، وہیں پاکستان سے اب تک ان دستاویزات میں صرف ایک ہی اہم نام دکھائی دیا ہے

یہ نام ہے پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبد الرحمان کا، جو سابق صدر جنرل ضیاءالحق کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے

17 اگست 1988 کو جنرل اختر عبد الرحمان، جو اس وقت چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی تھے، بھی اس طیارے میں سوار تھے جس میں جنرل ضیاءالحق سمیت پاکستان میں امریکی سفیر اور کئی فوجی افسران ہلاک ہوئے تھے

جنرل اختر 1979 سے 1987 تک آئی ایس آئی کے چیف رہے، جب پاکستان افغانستان میں امریکا اور دیگر ممالک کی مدد سے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد کر رہا تھا

او سی سی آر پی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اس وقت امریکا اور سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو بھیجی جانے والی رقم سوئٹزر لینڈ میں سی آئی اے کے اکاؤنٹس میں جمع کی جاتی تھیں

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل اختر عبدالرحمٰن خان نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مدد کے لیے امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے مجاہدین کو اربوں ڈالر کی نقد رقم اور دیگر امداد فراہم کرنے میں مدد کی’

اخبار کے مطابق لیک ہونے والا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ جنرل اختر کے تین بیٹوں کے نام پر 1985 میں اکاؤنٹ کھولا گیا، حالانکہ جنرل کو کبھی امدادی رقم کی چوری کرنے کے الزامات کا سامنا نہیں رہا

رپورٹ کے مطابق یہ وہ وقت تھا، جب سوئٹزر لینڈ کے کریڈٹ سوئز بینک میں یکم جولائی 1985 کو جنرل اختر عبد الرحمان کے تین بیٹوں، اکبر، غازی اور ہارون، کے نام پر مشترکہ اکاؤنٹ کھولا گیا

رپورٹ کے مطابق اس وقت جنرل اختر کے بیٹوں کی عمر بءس سے تیس سال کے درمیان تھیں

رپورٹ کے مطابق سنہ 2003 میں اس اکاؤنٹ میں موجود رقم کی مالیت تقریبا پانچ ملین سوئس فرینکس یا تین عشاریہ سات ملین امریکی ڈالر تھی

پہلے اکاؤنٹ کے چھ ہی ماہ بعد جنوری سنہ 1986ع میں جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹے اکبر کے نام پر ایک دوسرا اکاؤنٹ کھولا گیا

رپورٹ کے مطابق نومبر 2010 میں اس اکاؤنٹ میں موجود رقم کی مالیت نو ملین سوئس فرینکس یا نو عشاریہ دو ملین امریکی ڈالر سے زیادہ تھی

او سی سی آر پی کی رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے انٹیلیجنس ذرائع کی مدد سے بتایا گیا ہے کہ اس زمانے میں سوئٹزر لینڈ میں کسی بھی طرح کے خفیہ فنڈز کے لیے اکاؤنٹ کھلوانا بہت آسان تھا

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی زمانے یعنی 1985 میں اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے افغان جہاد کے لیے مختص فنڈ کے حوالے سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ یہ فنڈ کہاں جا رہا ہے

او سی سی آر پی رپورٹ کے مطابق جب جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹوں سے رابطہ کیا گیا توان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ’یہ معلومات درست نہیں اور قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔‘

واضح رہے کہ جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹے ہمایوں اختر خان اور ہارون اختر خان پاکستانی کی سیاسی اور کاروباری شخصیت ہیں

ہمایوں اختر خان چار بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور 2002 سے 2007 تک وہ وفاقی وزیر برائے کامرس بھی رہے۔ آج کل وہ تحریک انصاف سے منسلک ہیں۔ ان کے بھائی ہارون اختر خان موجودہ سینیٹ کے رکن ہیں اور پاکستان مسلم لیگ نواز سے وابستہ ہیں

اردن کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سعد خیر کا نام سرفہرست ہے، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے اہم اتحادی کے طور پر کام کر رہے تھے

رپورٹ کے مطابق ان کی سرگرمیاں مبینہ طور مشکوک تھیں کیونکہ ان پر تیل کی اسمگلنگ کے علاوہ امریکا کی مدد سے قیدیوں پر تشدد کے الزامات بھی موجود ہیں

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سنہ 2003ع میں سعد خیر نے کریڈٹ سوئز میں ذاتی اکاؤنٹ کھلوایا، جس کی مالیت سات سال میں تقریبا ساڑھے اکیس ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی

2005ع میں اردن کے شاہ عبداللہ نے سعد خیر کو عہدے سے ہٹا دیا تھا اور 2009ع میں ان کی ویانا میں موت واقع ہوئی

یہ اکاؤنٹ 2009ع میں ان کی موت سے کچھ ہی عرصہ قبل بند کر دیا گیا تھا

دوسرا نام یمن کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ غالب القمیش کا ہے جو 1980ع کی دہائی میں افغان جہاد کے لیے امریکی مدد سے رضاکار بھرتی کر رہے تھے. القمیش نے 1999ع میں کریڈٹ سوئز بینک میں نجی اکاؤنٹ کھولا تھا، جس کی مالیت 2006ع تک 3.7 ملین امریکی ڈالر ہو چکی تھی

انھوں نے اپنے اکاؤنٹ سے جنوری 2011 میں اس وقت چار ملین امریکی ڈالر نکلوا لیے تھے جب یمن کے دارالحکومت عدن میں عرب اسپرنگ کے آثار شروع ہو چکے تھے

اس فہرست میں صدر حسنی مبارک کا دایاں بازو تصور کیے جانے والے مصری خفیہ ایجنسی کے سربراہ عمر سلیمان کا نام بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق عمر سلیمان نے 2003 میں عین اس وقت کریڈٹ سوئز بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا، جب امریکا عراق پر حملے کی تیاری کر رہا تھا

سنہ 2007ع تک ان کے خاندان کے اکاؤنٹ میں مبینہ طور پر 63 ملین سوئس فرینکس موجود تھے۔ سنہ 2011 میں مصر کے صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹ جانے کے بعد سوئس حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حسنی مبارک اور ان کے قریبی ساتھیوں کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں

صدر حسنی مبارک کے خلاف مقدمے کے دوران ایک جج نے عمر سلیمان کی جانب سے بتایا کہ مصر کے بزنس مین حسین سالم خفیہ ایجنسی کے لیے جعلی ناموں سے مختلف تیل اور گیس کمپنیاں چلاتے تھے

خفیہ اداروں کے دیگر ناموں میں وینیزویلا کے سابق کپتان کارلوس لوئی ایگویلیرا کا نام بھی شامل ہے، جو سابق صدر ہوگو چاویز کے ذاتی محافظ تھے اور بعد میں خفیہ ایجنسی کے سربراہ بنے

عراق کے سابق صدر صدام حسین کے زیر انتظام خفیہ ایجنسی کے چیف فائنینشل افسر خلاف ال دلیمی، سابق مصری صدر جمال عبد الناصر کے داماد اور انٹیلیجنس مشیر اشرف مروان، جنہوں نے 1973 کی جنگ میں اسرائیل کو خفیہ معلومات فراہم کی تھیں، جرمنی کے سابق سیکرٹ پولیس کے افسر جرگن زیلینسکی کا نام بھی شامل ہے

گارڈین اخبار کے مطابق ان تحقیقات میں معلوم ہوا کہ سابق مصری صدر حسنی مبارک کے بیٹے بھی اس بینک کے صارف تھے

رپورٹ کے مطابق حسنی مبارک کے بیٹوں الا اور جمال نے 1993 میں مبینہ طور پر سب سے پہلا مشترکہ اکاؤنٹ کھلوایا تھا

سنہ 2010 تک صرف الا کے ایک اکاؤنٹ میں 138 ملین برطانوی پاؤنڈز موجود تھے

سنہ 2015 میں حسنی مبارک اور ان کے بیٹوں کو مصر کی عدالت نے کرپشن پر تین سال قید کی سزا سُنائی تھی جس کے بعد دونوں بھائیوں نے مصر کی حکومت کو 17 عشاریہ چھ ملین پاوئنڈ بطور جرمانہ ادا کیے تھے جس میں اعتراف جرم نہیں کیا گیا تھا

دونوں بھائیوں کے وکلا نے گارڈین اخبار کو بتایا کہ انھوں نے کوئی کرپشن نہیں کی اور دس سال کی تحقیقات کے باوجود ان کے اثاثوں میں کسی قسم کی غیر قانونی چیز کا ثبوت نہیں ملا

سوئز سیکریٹس میں فلپائن کے سابق آمر فرڈیننڈ مارکوس کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے بطور صدر تقریبا دس ارب ڈالر کی رقم بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے بھجوائی تھی

سنہ 1986 میں فرڈیننڈ مارکوس کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ 1995 میں زیورخ کی عدالت نے کریڈٹ سوئز بینک کو حکم دیا تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت کے پانچ سو ملین امریکی ڈالر فلپائن کو واپس کر دے

سوئز سیکرٹس میں قزاقستان کے موجودہ صدر قاسم جومارت توکایف کا نام بھی موجود ہے

رپورٹ کے مطابق ان کے خاندان نے مبینہ طور پر سوئٹزر لینڈ کے بینک میں 1998 میں بینک اکاؤنٹ کھلوایا تھا جو ان کی اہلیہ اور 14 سالہ بیٹے کے نام پر تھا۔ ان کے بیٹے تیمور اس وقت جنیوا میں ایک مہنگے اسکول میں پڑھ رہے تھے

رپورٹ کے مطابق ان کے اکاؤنٹ میں سنہ 2005 میں ایک ملین امریکی ڈالر تھے۔ یہ اکاؤنٹ 2012 میں بند کر دیا گیا تھا

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قاسم جومارت توکایف کی جانب سے سوئس اکاؤنٹ بند کر دینے کے بعد ان کے خاندان نے برٹش ورجن آئی لینڈ میں ایسی آف شور کمپنیاں کھول کی تھیں جن کے سوئس بینکوں میں اکاؤنٹ تھے اور ان کمپنیوں کے ذریعے مبینہ طور پر 2014 میں پانچ ملین پاؤنڈ مالیت کی ایک برطانوی کمپنی کنٹرول کی گئی

اس کے علاوہ ان کی اہلیہ اور بیٹے نے روس کے دارالحکومت ماسکو اور جینیوا میں بھی کم از کم سات عشاریہ سات ملین امریکی ڈالر مالیت کی جائیداد خریدی

نخچیون آٹونومس ریجن آذر بائیجان کا ایک ایسا علاقہ ہے جو آرمینیا اور ایران سے گھرا ہوا ہے اور ترکی سے بھی سرحد ملتی ہے۔ یہاں گذشتہ 26 سال سے وسیف طالیبوو حکومت چلا رہے ہیں جن کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان پر آمرانہ طرز حکومت کا الزام ہے جس کے تحت انھوں نے قیدیوں پر تشدد کے ساتھ ساتھ میڈیا کی آزادی پر بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں

اس رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر وسیف طالیبوو کے دو بیٹوں کے سوئز کریڈٹ بینک میں اکاوئنٹس موجود ہیں جن میں شیل کمپنیوں کی جانب سے بڑی رقم ٹرانسفر کی گئی

رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر وسیف طالیبوو کے بیٹوں سیمور اور رضا نے بعد میں دبئی اور جارجیا میں 63 ملین امریکی ڈالر مالیت کی جائیداد خریدی

رپورٹ کے مطابق سیمور اور رضا دونوں ہی حکومتی عہدے رکھتے ہیں اور ان کے خاندان کی آزربائیجان کے صدر سے بھی رشتے داری ہے

دوسری جانب اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان اکاؤنٹس کی معلومات کو لیک کرنے والا کون ہے؟ کیا یہ ایک فرد ہے یا پھر کوئی خفیہ تنظیم؟ جو بھی ہے اب تک یہ نام خفیہ ہے

تاہم رپورٹ کے مطابق ‘سوئس راز’ کے نام سے موسوم یہ بہت بڑا ذخیرہ جرمن اخبار ‘زیتو چتشائے تونگ’ کو ایک وہسل بلوور (کسی ادارے کا راز فاش کرنے کرنے والے) نے فراہم کیا تھا اور منشیات کی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے لیے بدنام کلائنٹس کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کیا تھا

لیکن ایک بیان میں یہ معلومات افشاں کرنے والے نے کہا ”سوئٹزر لینڈ کے بینکنگ قوانین غیر اخلاقی ہیں“

اس ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک سال قبل ان اکاؤنٹس کی تفصیلات عام کرنے کا مقصد سوئٹزر لینڈ کے بینکنگ سسٹم کے راز افشا کرنا تھا جس کا کردار شرمناک ہے کیوںکہ اس سسٹم کے تحت رازداری کے نام پر ٹیکس سے چھوٹ پانے والوں کی مدد کی جاتی ہے

اس حوالے سے مزید انکشافات آنے والے دنوں میں متوقع ہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ اعداد و شمار عام ہو جائیں گے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close