اسلام آباد – گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے امتناع الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کر دیا ہے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی ہے. اکثر صارفین کی رائے ہے کہ مستقبل میں یہ قوانین عمران اینڈ کمپنی کے خلاف ہی استعمال ہونگے
آرڈیننس کے تحت کسی بھی شخص، کمپنی، جماعت، تنظیم، اتھارٹی اور حکومت کے قائم کردہ کسی بھی ادارے کی تضحیک قابلِ دست اندازی پولیس جرم قرار دے دیا گیا ہے
آرڈیننس کے تحت امتناع الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 میں چار بنیادی ترامیم کی گئی ہیں جبکہ ایک مکمل نیا سیکشن شامل کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ شقوں میں ترمیم کی گئی ہیں
آرڈیننس کو ’امتناع الیکٹرونک کرائمز آرڈیننس 2022‘ کا نام دیا گیا ہے، جو فوری طور پر نافذالعمل ہوچکا ہے
پیکا آرڈیننس کے سیکشن دو میں فرد کی نئی تعریف شامل کرنے کے ساتھ نئی شق شامل کی گئی ہے۔ جس کے تحت ”کسی بھی شخص سے مراد کمپنی، جماعت، تنظیم، اتھارٹی اور حکومت کا قائم کردہ کوئی بھی ادارہ ہے“
آرڈیننس کے تحت الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد ٹیلی وژن پر کسی بھی فرد کے بارے میں فیک نیوز یا تضحیک بھی الیکٹرونک کرائم کے زمرے میں آئے گی
اسی طرح فیک نیوز دینے والے کو تین کے بجائے پانچ سال سزا ہوگی، جبکہ ایسی کسی خبر کے خلاف اتھارٹی کو درخواست دینے کے لیے متاثرہ شخص کے بجائے کسی بھی فرد کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ مقدمہ درج کرا سکے گا۔
نئے آرڈیننس کے تحت یہ جرم ناقابل ضمانت ہوگا
دوسری جانب ملک میں سوشل میڈیا صارفین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان ترمیم کردہ قوانین کو ’جمہوریت کے منافی‘ قرار دے رہی ہیں
دوسری جانب حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وزراء اور حامی پیکا کے ترمیم شدہ قانون کا دفاع کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
جبکہ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ اس ترمیم شدہ قانون کا عدالت میں چیلنج کریں گے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنسلٹ (پی ایف یو جے) کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’پی ایف یو جے کے رہنما اس کو عدالت میں چیلنج کریں گے اور ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاج بھی کریں گے۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے حکومتی آرڈیننس پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’یہ حکومت جو بھی قوانین بنا رہی ہے کہنے کو تو میڈیا اور اپوزیشن کی آواز بند کرنے کے لیے ہے مگر یہ قوانین عمران اینڈ کمپنی کے خلاف استعمال ہونے والے ہیں۔‘
جبکہ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا سے متعلق بنائے گئے قوانین پر گہری نظر رکھنے والی ڈجیٹل فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد کہتی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے جب یہ پیکا کا قانون بنایا تھا، تو انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ ان کے خلاف استعمال ہوگا مگر ان کو بات سمجھ نہیں آئی اور بعد میں پھر ان کے کارکنان اس متنازعہ قانون کا نشانہ بنے
واضح رہے کہ گذشتہ دور حکومت میں اگست 2016ع میں قومی اسمبلی سے ایک بل پریوینشن آف الیکڑانک کرائم ایکٹ 2016ع پاس ہوا تھا
نگہت داد کے مطابق ’اب پاکستان تحریک انصاف والے حکومت میں ہیں اور انہیں ابھی یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوں گے تو پھر یہی ترامیم ان کے لیے درد سر بن جائیں گی
وہ کہتی ہیں کہ یہ اتنا ڈریکونین لا یعنی کالا قانون ہے کہ گذشتہ پانچ چھ برس میں اس قانون کا غلط استعمال ہی نظر آیا ہے۔ اب اس قانون میں مزید ترامیم متعارف کروا کر اسے مزید سخت کر دیا ہے
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی صدف خان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسا قانون ہے جس کا براہ راست تعلق آئینی اور انسانی حقوق سے ہے، جس کا اطلاق سیاسی گفتگو اور تنقید پر بھی ہوتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم باقاعدہ پارلیمانی طریقہ کار ہی سے ہونی چاہیے تھی اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے یہ ترمیم کرنا، جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق ’تمام ترامیم کا بنیادی مقصد یہی نظر آتا ہے کہ ملک میں اظہار رائے کے آزادی پر گھیرا مزید تنگ کیا جا سکے۔‘
نگہت داد کے مطابق عدالتوں نے جب یہ فیصلے دیے کہ اس قانون کی سیکشن 20 جو ہتک عزت سے متعلق ہے میں صرف متعلقہ شخص ہی مدعی بن سکتا ہے، اس میں ادارے مدعی نہیں بن سکتے تو پھر اس کے بعد ایسی ترامیم کے ذریعے شخص کی تعریف ہی تبدیل کر دی گئی اور اب اس میں اداروں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں اس حوالے سے پہلے ہی بے تحاشا قوانین موجود ہیں پھر ایسی ترامیم لانا آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔
صدف خان کے مطابق اس ترمیم کو اس تناظرمیں دیکھنا لازمی ہے کہ پیکا کے جس سیکشن 20 میں بنیادی ترمیم کی جا رہی ہے، اس کا اطلاق ٹی وی کی نشریات پر نہیں ہوتا ہے۔
ان کے مطابق ’گذشتہ چند برسوں میں ہم نے دیکھا کہ ٹی وی اور دیگر مین سٹریم میڈیا پر بڑھتتے ہوئے دباؤ کے سبب کئی صحافیوں نے انٹرینٹ کو ایک ’آلٹرنیٹ میڈیم‘ (متبادل ذریعے) کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کئی ایسی خبریں نشر کیں جو ٹی وی پر نہیں ہو سکتی تھیں۔‘
صدف خان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے مقدمے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ بھی آیا کہ اس قانون کے تحت صرف انفرادی شہری ہی قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں۔ کئی خبریں ایسی ہوتی ہیں جو شروع میں سورسز کے ذریعے حاصل اور نشر کی جاتی ہیں۔
ان کے مطابق ماضی میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ خبر کو شروع میں حکومت اور حکوتی نمائندوں نے جھوٹا اور غلط قرار دیا مگر بعد میں وہ خبر درست ثابت ہوئی۔
اس ترمیم سے بنیادی طور پر اس طرح کی تمام خبروں اور تجزیوں کو پیش کرنے میں مشکل درپیش ہوگی اور ملک میں آزاد صحافت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی
صدف خان کے مطابق جب پاکستان مسلم لیگ ن پیکا کا قانون منظور کرنے جا رہی تھی تب حزب اختلاف میں پی ٹی آئی بھی اس کے مخالف تھی۔ ان کے مطابق ’اب پی ٹی آئی بھی قانون میں تبدیلی کر کے وہی غلطی دہرا رہی ہے۔‘
عدالت سے پیکا کے تحت متعدد مقدمات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی ثاقب بشیر نے ٹوئٹر پر اپنے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نو فروری کو یہ کہا تھا کہ ’ریاست اپنے عمل سے ثابت کرے آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں۔ ان کے مطابق آج گیارہ دن بعد حکومت نے واقعی ثابت کردیا ’قدغن ہی قدغن‘ ہے
سماجی کارکن فریحہ عزیز نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ کہ ’وہ اب اپنے غیر قانونی کاموں کو قانونی تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق اب ان قوانین کے تحت مقدمات قائم کرنے کے لیے عدالتی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی‘
انہوں نے ہتک عزت کے قانون کو قابل دست درازی قانون بنانے پر تنقید کی ہے اور حکومت سے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے
قانون ماہر ریما عمر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان نے ہتک عزت سے متعلق اپنے فوجداری قوانین مزید ظالمانہ کر دیے ہیں، جن کے تحت ’نیچرل پرسن‘ سے تعریف کو بڑھا کر ’آل پرسنز‘ تک وسیع کر دیا گیا ہے۔ جبکہ سزا بڑھا کر پانچ سال، اسے قابل دست درازی اور ناقابل ضمانت جرم قرار دیا ہے
ان کے مطابق اب اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص مدعی بن سکتا ہے.