منتخب نمائندوں کی راہ تکتا حاجی شمبے گوٹھ شرافی کا تباہ حال اسکول

مشتاق رسول

فطرت اور قدرت کا قانون ہے کہ اگر کوئی شخص یا اگر کوئی قوم کسی گناہ کا مرتکب ہوتی ہے، تو اسے ہر حال میں کسی نا کسی طرح سزا مل کر رہتی ہے، دنیا اسے مکافات عمل کہتی ہے

ہمارے یہاں سیاسی صورتحال پر غور کیا جائے تو سیاست میں بھی یہی قانون ایک مختلف زاویے سے لاگو کر دیا گیا ہے کہ کسی علاقے سے اگر کسی پارٹی کو الیکشن میں ووٹ نہ دیا جائے تو اقتدار میں آنے کے بعد اس علاقے کے لوگوں کو بر سر اقتدار پارٹی نظر انداز کر کے یہ کہہ دیتی ہے کہ ”نہ صرف تجھ سے انتقام لینا ہے، حساب وحشت تمام لینا ہے“

مگر روشنیوں کے شہر کراچی کے علاقے شرافی کے حاجی شمبے گوٹھ کے مکینوں سے یہ گناہ بھی سرزد نہیں ہوا، لیکن اس کے باوجود نظر انداز کیا جانا ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا

اس علاقے کے لوگوں نے انتخابات میں اِس وقت سندھ میں برسر اقتدار جماعت کے نمائندوں کو ہی ووٹ دیا، جو کامیاب بھی ہو گئے لیکن مذکورہ بالا قانونِ انتقام لاگو کیے جانے پر علاقہ مکین اپنے اس گناہ کی کھوج میں ہیں، جو اس سزا کی وجہ بنا، جو وہ اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیے جانے کی صورت میں بھگت رہے ہیں

شرافی کے علاقے میں واقع شمبے گوٹھ کا یہی وہ اسکول ہے، جب الیکشن سے پہلے اس حلقہ انتخاب سے کامیاب ہونے والے امیدوار نے اسکول کی عمارت دیکھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سب سے پہلے اسکول کی عمارت تعمیر کرنے اور یہاں تعلیمی سرگرمیوں کو بحال کرنے کا وعدہ کیا

وقت آن پہنچا، الیکشن ہوئے اور امیدوار کی کامیابی پر حلقہ مکینوں نے لیوا ڈھول کی تھاپ پر خوب جشن بھی منایا

اپنے گوٹھ والوں کو خوشی کے عالم میں رقص کرتے دیکھ کر اس تباہ حال اور کھنڈر نما اسکول کی عمارت کی بھی امید بندھی کہ اب یقیناً میرے بھی دن پھرنے والے ہیں. عمارت پر امید نگاہوں سے اسی انتظار میں تھی کہ اس کی از سر نو تعمیر نہ سہی، کم از کم مرمت کر ہی دی جائے گی

لیکن بسا آرزو کہ خاک شد.. یہ انتظار، انتظار ہی رہا کہ اس خواب کے نصیب میں تعبیر لکھی ہی نہ تھی

بات یہیں تک رہتی، تب بھی ٹھیک تھا لیکن اسکول کی عمارت کے لئے امید کا سورج بھری دوپہری میں اس وقت غروب ہوا جب محکمہ تعلیم کی جانب سے اسکول کا نام ”ڈیلیٹڈ لسٹ“ میں شامل کر دیا گیا

اربابِ اختیار نے اس اسکول کی پکار تو نہ سنی لیکن اسی عالم میں اس عمارت کی چیخیں گوٹھ کے ان معصوم بچوں کو ضرور سنائی دیں، جو اس جدید دور میں بھی تعلیم سے محروم ہیں

ایک عام آدمی کو گوٹھ کے گلی کوچوں میں بچے بظاہر مٹی سے کھیلتے نظر آتے ہیں، لیکن اگر دیکھا جائے تو اپنے بڑوں کے ناکردہ گناہ کی سزا بھگتتے یہ بچے دراصل اپنے مستقبل کو تلاش کر رہے ہیں

اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اپنے گوٹھ کے اسکول کا نام ڈیلیٹڈ لسٹ میں دیکھ کر یہ بچے اپنے مستقبل کو اپنے معصوم ہاتھوں سے گڑھا کھود کر دفنا رہے ہیں شاید…

کتابوں میں پڑھا ہے کہ جاہلیت کے دور میں سرزمینِ عرب کے لوگ اپنی معصوم بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے، سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس جدید و تعلیمی دور میں کس سزا کی پاداش میں شمبے گوٹھ کے بچوں کو اندھیری راہوں میں دھکیلا جا رہا ہے

 

اکیسویں صدی کے میٹروپولیٹن شہر میں چراغ تلے اندھیرا دیکھ کر تعلیم سے آراستہ لوگ جب یہ سوچتے ہیں کہ حیرت ہے یہاں کہ لوگوں کو اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا ہوش تک نہیں ہے… تب اس سوچ کے جواب میں اسکول کی کنھڈر بنی یہ عمارت چیخ اٹھتی ہے…. نہیں جناب! دورِ جاہلیت میں صرف لڑکیوں کو زندہ دفنایا جاتا تھا، اب زمانہ بدل گیا ہے… اب اگر کسی قوم کے مسقبل کے معماروں کو زندگی سے محروم رکھنا ہے تو انہیں زندہ دفن کرنے کے بجائے نا کردہ گناہ کی سزا میں تاریک مستقبل کی طرف دھکیلا جائے

ضلع ملیر، یونین کاؤنسل نائن شرافی کے حاجی شمبے گوٹھ کے معصوم بچوں کا مستقبل اسی سلوک کے بھنور میں پھنسا نظر آتا ہے۔ گلیوں میں مٹی سے کھیلتے بچے اور ان کا کھنڈر بنا اسکول کس سے سوال کریں؟ کس کو قصور وار ٹھہرائیں؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close