نیو یارک – اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یوکرین پر روسی حملے کے خلاف قرارداد 141 ووٹوں سے منظور کر لی ہے. قرارداد کی مخالفت میں تو پانچ ووٹ آئے، لیکن 35 ممالک نے سرے سے اس ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا، جن میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں
پاکستان اور بھارت کی جانب سے یوکرین کے تنازعے پر اب تک بہت پھونک پھونک کر قدم رکھے جا رہے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے حالیہ اجلاس میں ہونے والی ووٹنگ بھی اس کی عکاسی کرتی ہے
اس ووٹنگ سے قبل اقوامِ متحدہ میں یوکرین کے سفیر سرجی کسلٹسیا نے کہا تھا کہ ’روس نے یوکرین سے موجود ہونے کا حق چھین لیا ہے۔‘
اس موقع پر روسی سفیر ویسیلی نیبنزیا کا کہنا تھا کہ روس مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند تنازع حل کروانا چاہتا ہے۔ انہوں نے مغربی ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ ’کھلی اور مذموم دھمکیاں‘ دے رہے ہیں تاکہ دنیا کے ممالک کو اس قرار داد کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا جا سکے
یہ سنہ 1997ع کے بعد اسمبلی کی پہلی ہنگامی میٹنگ تھی۔ اس قرارداد کے ذریعے روسی حملے کی مذمت کرتے ہوئے روس کو فی الفور اپنی افواج یوکرین سے واپس بلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یوکرین پر روس کی جانب سے حملہ کرنے کی مذمت کرتے ہوئے ماسکو سے لڑائی بند کرنے کا مطالبہ کیا اور زور دیا کہ وہ فوری طور پر اپنی فوج واپس بلائے
واضح رہے کہ سلامتی کونسل میں منظور کردہ قراداد کے برخلاف جنرل اسمبلی میں منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد لازم نہیں ہوتا تاہم ان کی سیاسی اہمیت ہوتی ہے۔ بدھ کے روز منظور کردہ قرارداد کو یوکرین کی علامتی فتح اور روس کے بین الاقوامی طورپرمزید الگ تھلگ پڑجانے کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔ قرارداد میں یوکرین پر روس کی "جارحیت” کی نکتہ چینی اور نیوکلیائی فورسز کو الرٹ کرنے کے صدر ولادیمیر پوٹن کے فیصلے کی مذمت کی گئی ہے
پاکستان نے یوکرین کے بحران پر محتاط الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) میں دیے گئے اپنے ایک بیان میں کسی دوسرے ملک کے قومی مفادات کو خطرے میں ڈالے بغیر کسی ریاست کی علاقائی سالمیت کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا
اگرچہ جنرل اسمبلی کی اکثریت 141 ممالک کی جانب سے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا گیا لیکن یہ قرارداد ابھی ‘نان بائنڈنگ’ ہے جب تک کہ اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظور نہیں کرلیا جاتا
روس کے علاوہ چار دیگر ممالک نے بھی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ پاکستان سمیت 35 ممالک نے قرارداد کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا
یوکرین پر جاری ہنگامی اجلاس کے پہلے دو روز پاکستان نے سیشن کی کارروائی کا بغور جائزہ لیا، جس کے دوران کئی ممالک نے روس پر یوکرین پر حملہ کرنے کا الزام لگایا اور مقبوضہ علاقے سے تمام روسی فوجیوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں پر کاربند ہے، جس میں عوام کے حق خود ارادیت، طاقت کےاستعمال یا اس کے استعمال کی دھمکی، ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت، اور تنازعات کے پر امن حل کی بات کی گئی ہے
پاکستان سب کے لیے یکساں طور پر مساوی اور ناقابل تقسیم سلامتی کے اصول کی پابندی کرتا ہے اوران اصولوں کا مستقل اور عالمی طور پر احترام کیا جانا چاہیے
انہوں نے کہا کہ تشدد اور جانی نقصان کے ساتھ ساتھ فوجی ، سیاسی اور سفارتی کشیدگی میں مزید اضافے سے بچنے کی بھی ضرورت ہے جو بین الاقوامی امن و سلامتی اور عالمی اقتصادی استحکام کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں
مستقل مندوب کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ روس اور یوکرین کے نمائندوں کے درمیان شروع ہونے والی بات چیت حالات کو معمول پر لانے اور دشمنی کے خاتمے کا موجب ہوگی
انہوں نے مزید کہا کہ متعلقہ کثیر الجہتی معاہدوں، بین الاقوامی قانون اوراقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعات کے مطابق تنازعہ کا سفارتی حل ناگزیر ہے۔ پاکستان متاثرہ علاقو ں میں شہریوں کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کی تمام کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے
اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس تریمورتی نے ووٹنگ سے بھارت کے اجتناب کے بعد کہا کہ بھارت کی پہلی ترجیح یوکرین میں پھنسے اپنے شہریوں بالخصوص طلبہ کو نکالنا ہے۔ اُنہوں نے جنگ زدہ علاقوں میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہاں امدادی کارروائیاں رکنی نہیں چاہییں
بھارت نے بھی پاکستان کی طرح اُمید ظاہر کی کہ روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ نتیجہ خیز ثابت ہوگا
واضح رہے کہ اس سے قبل بھارت نے سلامتی کونسل میں روس کے خلاف مذمتی قرارداد پر ہونے والی رائے شماری میں بھی حصہ نہیں لیا تھا
چنانچہ اب پاکستان اور بھارت بھی یوکرین کے معاملے پر ایک ہی صف میں کھڑے نظر آ رہے ہیں
واضح رہے کہ روس کے علاوہ دیگر چار ممالک نے بھی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ پاکستان سمیت پینتیس ممالک نے قرارداد کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا
جنوبی ایشیائی دیگر تین ممالک، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی قرارداد کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ نیپال نے امریکی حمایت یافتہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیا
ایک بڑی عالمی طاقت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک چین نے بھی ووٹنگ میں حصہ لینے سے پرہیز کیا
اس حوالے سے بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا خیال ہے کہ کئی ممالک کی جانب سے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کے فیصلے کے باعث پاکستان کے ایک ایسے معاملے پر تنہا رہ جانے کا خطرہ ختم ہوگا، جو اسلام آباد کو امریکا کے ساتھ ووٹ نہ دینے کی صورت میں نظر آ رہا تھا جبکہ پاکستان روس کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے
یکم مارچ کو پاکستان کے دفتر خارجہ کو 22 ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کی جانب سے انتہائی غیر معمولی خط موصول ہوا تھا، جس میں اسلام آباد پر زور دیا گیا تھا کہ وہ روس کی جارحیت کی مذمت کرنے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کی حمایت کرے اور اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کرے
موصول ہونے والے پر دستخط کرنے والوں میں یورپی یونین کے رکن ممالک اور بڑی غیر یورپی طاقتیں، جیسے آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان شامل تھے
مگر اسی روز اعلیٰ ترین سرکاری حلقوں سے مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ پاکستان اس ووٹنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ کم از کم دو اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے بتایا تھا کہ پاکستان اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے نہ مخالفت
دوسری جانب حال ہی میں روس کا دورہ کرنے والے وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں اپنے معاونین کے ایک اجلاس میں یوکرین کی صورتحال اور تنازع پر پاکستان کے مؤقف پر تبادلہ خیال کیا
وزیر اطلاعات نے اجلاس کے بعد کہا کہ اجلاس میں پاکستان کے مستقل نمائندے کی تقریر کے متن کی منظوری دے دی ہے
پاکستان کے اس فیصلے کو کئی لوگ خوش آئند سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی ’سیاسی دھڑے‘ کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی تلقین کر رہا ہے
پاکستان کی طرف سے ایسا کرنا ایک حیران کن عمل بھی ہے، کیونکہ اس سے پہلے پاکستان نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں شورش کی شکل میں سامنے آیا۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک وقت میں بین الاقوامی طور پر تنہا کیے جانے کا خطرہ بھی رہا
دو روز قبل پاکستان سینیٹ کی کمیٹی برائے اُمورِ خارجہ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا تھا کہ ’اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اس خطے میں اپنا کردار ادا کرے جس میں پاکستان کے تعلقات روس، چین اور وسطی ایشیا سے بھی ہیں۔ اور تیسرا یہ کہ پاکستان اب کسی قسم کی کشیدگی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ نہ کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے اور نہ کسی کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔‘
مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازع یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے جو یوکرین میں جاری ہے۔
سرد جنگ کی اصطلاح سے پاکستان کی کوئی بہت اچھی یادیں وابستہ نہیں ہیں۔ چالیس کی دہائی سے 1991 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے تک امریکہ اور روس کے درمیان جاری سرد جنگ میں پاکستان نے امریکی کیمپ کا حصہ بننے کو ترجیح دی تھی جبکہ بھارت نے ہمیشہ خود کو غیر جانبدار رکھا
پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی جنگ میں بھی غیر روایتی طرز سے حصہ لیا اور یوں پاکستان اور سویت یونین، بعد میں روس سے تعلقات شدید سرد مہری کے شکار رہے۔ اس جنگ کے باعث پاکستان کو کئی مالی، معاشی، معاشرتی اور سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جن میں کچھ اب تک جاری ہیں
چنانچہ اب پاکستان کے غیر جانبدار رہنے کے فیصلے کو کئی لوگ سراہ رہے ہیں۔ مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اس جنگ میں براہِ راست مفاد نہیں اور نہ ہی پاکستان اس کشیدگی کا حصہ بننا چاہتا ہے
اُنہوں نے کہا تھا کہ ’امریکا کی حمایت اور اُن کا ساتھ دینے میں پاکستان خاص طور پر پیش پیش رہا۔ اس کے نتیجے ہمیں (پاکستان کو) صرف نقصان ہی ہوا۔ اور امریکہ نے ضرورت پڑنے پر ہمارا ساتھ نہیں دیا۔‘
دوسری جانب بھارت کے لیے صورتحال بہت پیچیدہ ہے، کیونکہ ایک طرف بھارت اور چین کے پڑوس میں واقع بحرالکاہل کے خطے میں عالمی طاقتوں کا آپسی تناؤ بڑھ رہا ہے اور یہاں پر چار ملکوں کے اتحاد کواڈ (امریکہ، جاپان، انڈیا اور آسٹریلیا) قائم ہے تو وہیں روس کے پڑوس میں واقع بحرِ اوقیانوس کے گرد قائم ممالک کا اتحاد نیٹو روس کے لیے تشویش کا باعث ہے
مگر بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے حال ہی میں کہا ہے کہ بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس میں صورتحال ایک جیسی نہیں ہے
بھارت کو چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعے پر مغرب بالخصوص امریکہ کی حمایت بھی درکار ہے مگر وہیں یہ روس سے اسلحے کا ایک بہت بڑا خریدار بھی ہے
اور یہ بات واضح ہے کہ بھارت کی جانب سے کسی بھی اسلحہ خریداری کی وجہ چین اور پاکستان ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان اور چین میں بھی یہی صورتحال بھارت کے متعلق ہے
یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ امریکا نے روس سے اسلحہ سسٹمز خریدنے والے ممالک پر پابندیوں کا قانون منظور کر رکھا ہے، مگر بھارت کی جانب سے روس کا ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے کے باوجود بھارت اب تک امریکی پابندیوں سے بچا ہوا ہے
چنانچہ بھارت بھی سفارتی طور پر ایک تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہے جس میں اسے متعدد عالمی طاقتوں اور ایک سپرپاور کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کے درمیان ایسا توازن برقرار رکھنا ہے کہ دونوں اہم خطوں میں اس کے مفادات حاصل ہوتے رہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت، امریکہ تعلقات پر کوئی طویل مدتی منفی اثر نہیں پڑے گا، جیسا کہ بھارت کی طرف سے روس سے ہتھیاروں کی خریداری کے حوالے سے امریکا کے پھسپھسے ردعمل کے وقت بھی سامنے آیا
چنانچہ دونوں پڑوسی ملک بھارت اور پاکستان، جن کے درمیان اب تک چار جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور کئی مسلح تنازعات پیش آ چکے ہیں، اس وقت اپنے اپنے مفادات کے پیشِ نظر اس نئی عالمی بازی پر مہرہ بننے سے انکاری نظر آ رہے ہیں.