کیا مکلی واقعی ماں کالی کا بگاڑ ہے؟

عزیز کنگرانی

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹہ کے قریب تر مکلی کا بہت بڑا اور قدیم قبرستان ہے۔ مورخین اور محققین کی تحقیق کے مطابق مکلی کا قبرستان تیرہ یا چودہ کلومیٹر کی اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔ مکلی کا قبرستان مختلف دور کی تاریخ کا گہوارا ہے۔ مقبروں کی طرز تعمیر بھی مختلف ادوار کی نشاندہی کرتی ہے۔ سندھ میں یہ واحد قبرستان ہے، جو عالمی تاریخی اور ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ اس قبرستان پر معروف محققین نے سندھی ، اردو، فارسی اور انگریزی زبان میں کتابیں لکھی ہیں

عالمی تاریخی اور ثقافتی ورثے میں شامل مکلی کے تاریخی اور شاندار قبرستان میں مائی مکلی کی قبر اور مکلی نام کے بارے میں علی احمد بروہی اپنی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب ”ٹامب اسٹونس ان سندھ بلوچستان“ میں لکھا ہے کہ، ”حقیقت میں مائی مکلی نام سے لگتا ہے کہ مہا کالی (ماں کالی، یا کالی ماتا) کا مندر تھا۔ جس سے نام مکلی لیا گیا ہے۔ مکلی کے نام کے بارے میں بہت سے نظریے یا خیالات پیش کیے گئے ہیں جن میں سے کوئی بھی قبول کرنے کے قابل نہیں لگتا“

علی احمد بروہی صاحب نے اپنی کتاب میں مزید یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ، ”سمہ حکمران جام نظام الدین عرف عام جام نندو ( 1509ع۔ 1461ع) کے مقبرے میں استعمال کیے گئے پتھر کسی پرانے مندر کے لگتے ہیں“

علی احمد بروہی صاحب کا نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے کہ مکلی کے قبرستان میں مہا کالی، ماں کالی یا کالی ماتا کا مندر ہوگا۔ مکلی نام ماں کالی سے مانکلی پھر ماکلی بعد میں مکلی سے مشہور ہوا ہوگا۔ اب مائی مکلی سے معروف کیا گیا ہے، جس کی قبر بھی مکلی کے قبرستان میں بنائی گئی ہے۔ مائی مکلی کی قبر کا کالا رنگ بھی اس خیال کو پختہ بناتا ہے کہ ہنگلاج بلوچستان پاکستان میں کالی ماتا کے مندر کی طرح یہاں بھی کالی ماتا یا مہا کالی کا مندر ہوگا

جب اس سلسلے میں بغور دیکھا جائے کہ سندھ میں مکلی کے قبرستان سے لے کر مغرب میں بلوچستان کے علاقے حب اور وندر سے لے کر ہنگلاج تک سارے علاقوں میں موجود پتھر کے تراشے ہوئے سلیبوں سے بنائے گئے مقبروں اور قبروں میں فن تعمیر کے لحاظ سے بہت بڑی مماثلت ہے۔ البتہ فن تعمیر میں کہیں معیار کم نظر آتا ہے۔ سندھ کے ضلع جامشورو کے کوہستانی علاقے، ضلع ٹھٹہ میں یا چوکنڈی قبرستان میں مقبرے یا قبریں بلوچستان کے حب، وندر، ہنگول سے ہنگلاج تک مقبرے یا قبروں کے فن تعمیر میں کم فرق نظر آتا ہے۔ مکلی اور چوکنڈی کے علاوہ سندھ سے بلوچستان تک کچھ محقق سکندر اعظم کے دور سے اور کچھ محقق محمد بن قاسم کے وقت یا دور سے منسوب کرتے ہیں. مجھے یہ مفروضہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ ایسی قبریں اور مقبرے ہیں جو بعد میں بلوچ اور سندھی قبیلوں نے بنوائے تھے، وہ آج بھی موجود ہیں

مکلی میں مہا کالی کے مندر ہونے کی علی احمد بروہی صاحب کی رائے کی تصدیق سواستیکا کی نقش نگاری بھی کرتی ہے۔ یہ ایک بڑی دلیل بھی ہے کہ مکلی میں ایک مقبرے کی دیوار پر ہندو اور دوسرے مذاہب کی علامت سواستیکا نقش ہے۔ کوئی یہ کہے کہ دیوار کو سنوارنے (Decorate) کے لئے سواستیکا کی نقش نگاری کی گئی ہوگی مگر سوال یہ بھی ہے کہ مسلمان سواستیکا کی نقش نگاری کسی مسلمان کے مقبرے پر کیسے کروا سکتا ہے۔ علی احمد بروہی کی رائے کی روشنی میں میرے خیال کے مطابق سواستیکا والا پتھر کسی مندر کی دیوار کا ہوگا اور اٹھا کر یہاں لگایا گیا ہوگا

بہرحال مکلی کے قبرستان کے نام اور کسی مندر کے موجود ہونے کے بارے میں افسانوی بیانات اور خیالات کے بجائے سائنسی اور مستند تحقیق کی ضرورت ہے

بروہی صاحب کی رائے کے حوالے سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مکلی واقعی مہا کالی کا بگاڑ ہے؟ اگر نہیں تو اس سوال کا جواب تحقیقی دلائل کی روشنی میں ڈھونڈنا ہوگا اور ثابت کرنا ہوگا کہ مکلی مہا کالی کا بگاڑ نہیں.

بشکریہ : ہم سب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close