کراچی – جیو ٹیگنگ صارفین کو آلہ سے مختلف قسم کے مقام کی مخصوص معلومات تلاش کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، کوئی ایک موزوں تصویری سرچ انجن میں عرض البلد اور طول البلد کوآرڈینیٹ داخل کرکے کسی مخصوص مقام کے قریب لی گئی تصاویر تلاش کرسکتا ہے
جیو ٹیگنگ میڈیا کی مختلف شکلوں میں فزیکل لوکیشن ڈیٹا کو شامل کرنے کا عمل ہے۔ ڈیٹا میں عام طور پر طول و عرض شامل ہوتا ہے، لیکن اس میں اونچائی، فاصلہ اور جگہ کے نام بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، فیسبک کے صارفین کسی مقام پر چیک ان کر سکتے ہیں، اپنے پیروکاروں کو ڈیجیٹل طور پر بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں؟
اسی طرح سے جانوروں میں بھی جیو ٹیگنگ کے عمل سے ان کی لوکیشن کے بارے میں ہمہ وقت آگاہ رہا جاتا ہے
جانوروں میں ٹریکنگ ٹیگ کا بنیادی مقصد ان کے بارے میں ہر قسم کے حالت سے آگاہ رہنا ہے، اس کا مقصد نہ صرف ان کے بارے میں تحقیق کرنا ہے بلکہ اس کا ایک مقصد ان کی حفاظت بھی ہے. یوں سمجھ لیں کہ جانوروں پر ٹریکنگ ٹیگ لگا کر، محققین عملی طور پر ان کے ساتھ غوطہ لگا سکتے ہیں، شکار کر سکتے ہیں، اور جنگلی حیات کے ساتھ ہجرت کر سکتے ہیں، جو دوسری صورت میں وہ کبھی نہیں کر سکتے، اس طرح وہ جانوروں کے بارے میں قیمتی معلومات پر مبنی ڈیٹا اکٹھا کر سکتے ہیں۔ یہ ٹیگز سائنسدانوں کو زندگی اور موت کے اسرار کے بارے میں بصیرت فراہم کر رہے ہیں، بشمول آبادی میں کمی کی ممکنہ وجوہات وغيره
پاکستان میں دریائی ڈولفن کی سیٹلائٹ ٹیگنگ
محکمہ جنگلی حیات سندھ اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ماہرین کی ایک مشترکہ ٹیم نے حالیہ دنوں دریائے سندھ میں پائی جانے والی انڈس ڈولفن کو سیٹلائیٹ ٹیگ لگائے ہیں
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق یہ سیٹلائیٹ ٹیگ ایشیا میں کسی بھی دریائی ڈولفن کو پہلی بار لگایا گیا ہے
یہ سیٹلائیٹ ٹیگ دو بالغ مادہ ڈولفن اور ایک چھوٹی عمر کے نر ڈولفن کو لگائے گئے
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق سیٹلائیٹ ٹیگ لگنے کے بعد انڈس ڈولفن کے متعلق سائنسی معلومات مل سکیں گی، جس سے ڈولفن کے تحفظ میں مدد ملے گی
واضح رہے کہ ہر سال کی طرح پاکستان سمیت دنیا بھر میں جنگلی حیات کے تحفظ کا عالمی دن جمعرات تین مارچ کو منایا گیا
جنگلی حیات کے تحفظ کا عالمی دن منانے کا مقصد جنگلی حیات بشمول ممالیہ، رینگنے والے جانور، کیڑے مکوڑوں، آبی جانوروں، پرندوں کے تیزی سے معدوم ہوتی نسل کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے
اس عالمی دن کے کے لیے ہر سال ایک نیا تھیم دیا جاتا ہے اور اس سال اس کی تھیم ’ایکوسسٹم یا ماحولیاتی نظام کے لیے اہم پرجاتیوں کی بحالی‘ ہے
سندھ وائلڈ لائف کے سربراہ جاوید احمد مہر نے بتایا کہ ’دنیا میں صرف چند مقامات پر دریائی پانی میں ڈولفن پائی جاتی ہیں۔ دریا کا پانی ریت شامل ہونے کے باعث مٹیالا ہوتا ہے۔ اس لیے دریائی ڈولفن کے متعلق کوئی معلومات نہیں حاصل کی جا سکتی‘
وہ کہتے ہیں ’سیٹلائیٹ ٹیگ لگنے کے بعد انڈس ڈولفن کی تمام حرکات کو ٹریک کیا جاسکے گا۔ جس سے انڈس ڈولفن کے مسکن، خوراک کے رجحان، افزائش نسل سمیت تمام معلومات اکٹھی کی جاسکے گی۔‘
دریائے سندھ میں پائی جانے والی انڈس ڈولفن کو سندھی زبان میں ’اندھی بلہن‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ڈولفن مچھلی نہیں بلکہ بچے دینے اور بچوں کو دودھ پلانے والی ممالیہ ہے
بین الاقوامی تنظیم انٹرنینشل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے اس صاف پانی کی ممالیہ جانور کو خطرے سے دوچار انواع کی ریڈ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے اور عالمی سطح پر انڈس ڈولفن کا شمار دنیا کے نایاب ترین ممالیہ جانوروں میں کیا جاتا ہے۔
صاف پانی یا دریاؤں میں فقط چند مقامات پر ہی دریائی ڈولفنز پائی جاتی ہیں۔ بھارت میں گنگا ندی، بولیویا اور برازیل کے درمیان بولوین ندی کی ڈولفن، ایمیزون ندی کی ڈولفن، چین کے دریائے ینگٹز میں پائی جانے والی ڈولفن اور دریائے سندھ کی ڈولفن نمایاں سمجھی جاتی ہیں۔
ان تمام ڈولفن میں انڈس ڈولفن سب سے منفرد ہے کیونکہ یہ اندھی ہے۔
ویسے تو انڈس ڈولفن معدومی کا شکار ہے اور دو دہائی پہلے انڈس ڈولفن کی کل تعداد صرف 1200 تھی۔ مگر محکمہ جنگلی حیات سندھ، ڈبلیو ڈبلیو ایف اور دریائے سندھ کے کناروں پر آباد ماہی گیر کمیونٹی کی انتھک محنت سے اب یہ تعداد بڑھ کر 2000 ہوگئی ہے۔
انٹینا والے ہیلمٹ پہن کر سائنس دانوں کی مدد کرتی ’سیلز‘
انٹینا کے ساتھ سر پر ہیلمٹ پہنے سمندری سیل دیکھنے میں تو غیرمعمولی لگ سکتی ہے لیکن یہ آٹھ سیلز جاپانی محققین کو انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے پانی کا سروے کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان آٹھ سیلز کے سروں پر ڈیٹا اکھٹا کرنے کے لیے کچھ ڈایوئسز لگائی گئی ہیں، جن کا وزن 580 گرام ہے
مارچ اور نومبر 2017 کے درمیان ایک تحقیقی پروجیکٹ کے لیے ان سیلز کا انتخاب کیا گیا
ان کے سروں پر لگائی جانے والی ڈیوائسز میں درجہ حرارت اور گہرائی ماپنے والے سینسر بھی نصب کیے گئے تاکہ شدید سرد حالات میں سائنس دان ان علاقوں سے ملنے والے ڈیٹا کی مدد سے علاقے کے بارے میں مزید معلومات اکھٹی کر سکیں۔ جس میں پانی کا درجہ حرارت اور پانی میں نمک کی شرح شامل ہے۔
پروجیکٹ نگران نوبو کوکوبن نے کہا کہ ’اس طرح کی تحقیق سے سائنس دانوں کو جانوروں کے طرزعمل اور ماحولیات کے بارے پتا لگانے میں مدد ملتی ہے‘
روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں کوکوبن کا کہنا تھا کہ ’موسم گرما کے دوران ہم انٹارکٹیکا جا سکتے ہیں تاکہ ہم ڈیٹا اکھٹا کر سکیں لیکن سردیوں میں ایسی بہت سی چیزیں کی جا سکتیں۔ تاہم ایسی صورت حال میں سیل کے علاوہ بھی بہت سے جانور انٹارکٹیکا کے علاقے میں رہتے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ ہمیں ان سے ڈیٹا اکھٹا کرنا چاہیے۔‘
سات سیلز سے کامیابی کے ساتھ حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ان میں سے ایک نے انٹارکٹیکا میں جاپان کے شووا سٹیشن کے ساحل سے 633 کلومیٹر تک کا سفر طے کیا جب کہ ایک اور سیل 700 میٹر کی گہرائی تک بھی اترا
کوکوبن نے کہا کہ سائنس دانوں نے ملنے والی ان معلومات سے یہ بھی سیکھا کہ کھلے سمندر میں بالائی سطح سے گرم سمندری پانی مارچ سے سردیوں تک انٹارکٹیکا پہنچتا ہے جو انٹارکٹک کرل جیسی سمندری مخلوقات ساتھ لاتا ہے جو سیلز کی خوراک کا ایک بڑا ذریعہ ہیں
انٹارکٹکا کے ساحلی علاقوں پر گلوبل وارمنگ کے اثرات کا جائزہ لینے والے کوکوبن نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ اس ڈیوائس کا حجم کم کر کے جنوبی علاقوں کے جانور جیسے پینگوئن وغیرہ پر بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پینگوئن کے ذریعے معلومات اکھٹی کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ اسی جگہ پر واپس آجاتے ہیں جہاں سے سفر شروع کرتے ہیں اور ان سے ہم فوری طور پر ڈیٹا اکھٹا کر سکتے ہیں
اس کے علاوہ پینگوئن کی ایک بڑی تعداد میں پر ڈیوائسز استعمال کر سکتے ہیں تاکہ وہ ایک وسیع علاقے کا احاطہ کر سکیں.