یوکرین میں روس پر جنگی جرائم کا الزام، یہ کیا ہوتے ہیں اور ان کا مقدمہ کیسے چلایا جاتا ہے؟

ویب ڈیسک

روس کی جانب سے شہریوں پر بمباری کے الزامات کے بعد یوکرین میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے

عالمی عدالتِ فوجداری (آئی سی سی) کے چیف پراسکیوٹر کا کہنا ہے کہ مبینہ جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی سے متعلق شہادتیں جمع کی جا رہی ہیں

یہ تحقیقات انتالیس ممالک کی جانب سے اپیل کے بعد شروع کی گئی ہیں تاہم روس نے شہریوں کو نشانہ بنانے کے الزامات کو مسترد کیا ہے

جنگی جرائم کیا ہیں اور روس پر کیا الزامات ہیں

جنگی جرائم کے حوالے سے جو قوانین ہیں ان کو جنیوا کنوینشن اور روانڈا اور یوگو سلاویہ کے بارے میں انٹرنیشنل ٹریبیونل کے فیصلوں کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے

جنیوا کنوینشن بین الاقوامی معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے، جو جنگوں میں انسانوں کے ساتھ سلوک کا معیار طے کرتا ہے

پہلے تین کنوینشن لڑنے والے لوگوں اور جنگی قیدیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، جبکہ چوتھا جنگی علاقوں میں پھنسے شہریوں کو۔ یہ معاہدہ دوسری عالمی جنگ کے بعد منظور کیا گیا تھا

سنہ 1949ع کے جنیوا کنوینشن کی توثیق روس سمیت اقوامِ متحدہ کے تمام رکن ممالک نے کی تھی

چوتھے جنیوا کنوینشن میں جنگی جرائم کی تشریح اس طرح ہے:

▪️جان بوجھ کر قتل کرنا
▪️ایذائیں دینا اور غیر انسانی سلوک کرنا
▪️کسی کے جسم یا صحت کو جان بوجھ کر تکلیف پہنچانا
یرغمال بنانا
▪️بڑے پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچانا جس کا فوجی جواز نہ ہو
▪️غیر قانونی جلا وطنی یا قید
▪️شہری آبادی یا شہریوں کے خلاف حملے
▪️لڑائیوں میں براہ راست شرکت کرنا
▪️عالمی سطح پر یہ جانتے ہوئے حملہ کرنا کہ اس کے نتیجے میں شہریوں کا جانی اور مالی نقصان ہو سکتا ہے۔
▪️قصبوں، شہروں یا عمارتوں پر حملے یا بمباری کرنا
▪️اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہسپتالوں مذہبی مقامات یا سکولوں کی عمارتوں پر جان بوجھ کر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس میں خاص قسم کے ہتھیاروں اور زہریلی گیسوں پر بھی پابندی ہے۔

آئی سی سی کیا ہے اور جنگی جرائم کا مقدمہ کیسے چلایا جاتا ہے؟

انٹرنیشنل کریمنل کورٹ 1998 میں نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں قائم کی گئی تھی۔ یہ ایک آزاد ادارہ ہے جہاں ان لوگوں پر مقدمہ چلایا جاتا ہے جن پر عالمی برادری کے خلاف انتہائی سنگین جرائم کے الزامات ہوں

یہ ادارہ جنگی جرائم، نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جارحیت کے خلاف تحقیقات کرتا ہے

کوئی بھی ملک ملزمان پر اپنے یہاں مقدمہ چلا سکتا ہے۔ آئی سی سی اس وقت کارروائی کرتی ہے جب کوئی ملک کارروائی نہ کرنا چاہتا ہو۔ یہ عدالت آخری آپشن ہوتا ہے

اس عدالت کی اپنی کوئی پولیس فورس نہیں ہے اور ملزمان کو پکڑنے کے لیے یہ متعلقہ ملک کے تعاون پر انحصار کرتی ہے۔ آئی سی سی کی جانب سے ملنے والی سزاؤں میں جیل اور جرمانہ شامل ہے

روس اور یوکرین اس عدالت کے ایک سو تیئیس رکن ممالک میں شامل نہیں ہیں، لیکن یوکرین نے عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کر لیا ہے جس کا مطلب ہے کہ آئی سی سی کچھ مبینہ جرائم کی تحقیقات کر سکتی ہے

دیگر کچھ بڑے ممالک اس کے رکن نہیں ہیں جن میں امریکہ، چین اور انڈیا شامل ہیں

کیا اس سے پہلے جنگی جرائم کے مقدمے ہوئے ہیں؟

دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کے ہاتھوں لاکھوں افراد کی ہلاکتیں ہوئیں جن میں بیشتر یہودی تھے۔ اس سلسلے میں ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی جنھیں اس کا قصور وار سمجھا گیا تھا

سنہ 1945 اور 1946 کے نیورمبرگ ٹرائلز میں دس نازی رہنماؤں کو سزائے موت دی گئی تھی۔ اسی طرح سنہ 1984 میں ایسے ہی ایک مقدمے میں سات جاپانی کمانڈروں کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی

اس طرح کے مقدموں نے بعد کے واقعات کے لیے ایک مثال قائم کی تھی

سنہ 2012 میں کانگو کے جنگجو سردار تھامس لوبانگا آئی سی سی کی جانب سے سزا پانے والے پہلے شخص تھے جن پر 2002 اور 2003 میں بچوں کو اپنی باغی فوج میں شامل کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا۔ اُنھیں چودہ سال قید کی سزا دی گئی تھی

سابق یوگوسلاویہ کا انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل اقوامِ متحدہ کا حصہ ہے اور یوگوسلاویہ جنگ کے دوران ہونے والے جرائم کی تحقیقات کے لیے قائم کیا گیا تھا

اس میں 2016 میں یوگو سلاویہ کے سابق صدر رادووان کراڈچ کو جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں کردار کے لیے قصور وار قرار دیا گیا

روس پر کیا الزامات ہیں؟

حالیہ دنوں میں یوکرین کیئو، خارخیو اور خیرسون جیسے شہروں پر حملے کیے گئے

یوکرین کے صدر ولادیمی زیلینسکی نے روس پر جنگی جرائم کے ارتکاب کاالزام لگایا ہے

ایک اور شہر پر حملے میں ماسکو پر کلسٹر بم استعمال کرنے کا الزام ہے

سنہ 2008 کے کنوینشن کے تحت کئی ملکوں نے کلسٹر بموں کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے تاہم روس اور یوکرین نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے

انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ میں یوکرین کے سفیر نے شمال مشرقی شہر اوخترکا پر حملے میں ویکیوم بموں کے استعمال کا الزام لگایا ہے

ویکیوم بم ایک تھرموبیرک ہتھیار ہے جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے

اس طرح کے ہتھیاروں پر پابندی کے لیے کوئی بین الاقوامی قوانین نہیں ہیں لیکن اگر کوئی ملک شہری آبای، سکول یا ہسپتالوں پر اس کا استعمال کرتا ہے تو اس پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے

روس نے کسی بھی طرح کے جنگی جرائم، کلسٹر بموں یا ویکیوم بموں کے استعمال کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹی خبر کہا ہے

ملک کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو کا کہنا ہے’ صرف فوجی ٹھکانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان اہداف کو بہت احتیاط سے نشانہ بنایا گیا ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close