نیو یارک سے جاری ہونے والی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد جولائی2021 کے ایک کروڑ 40 لاکھ کے مقابلے 2 کروڑ 30 لاکھ تک جا پہنچی ہے
جنرل سیکریٹری اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان رمیز الکباروف کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک بڑی شرح ہے اور ناقابل تصور ہے، یہ اب تک تباہ کُن طور پر یہ تلخ حقیقت ہے
بھوک اور افلاس میں تیزی سے اضافے نے افغان خاندانوں کو خطرناک اقدامات کرنے پر مجبور کردیا ہے، جس میں کھانا نہ کھانے جیسے اقدام شامل ہیں
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ ناقابل قبول تجارت مشکلات کا سبب بن سکتی ہے، جس میں معیار، تعداد اور بڑے پیمانے پر خوراک کی کمی پیدا ہوسکتی ہے
انہوں نے کہا کہ یہ حالات بڑے پیمانے کو بچوں نقصان پہنچانے کے ساتھ خواتین اور مردوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر نقصاندہ اثرات مرتب کرسکتا ہے
اپنی رپورٹ میں رمیز الاکباروف نے ایک خوراک کی کمی کا شکار بچوں کے ہسپتال کے وارڈ کی تصویر بھی شائع کی، یہاں ایسے بچے زیر علاج ہیں جن کا وزن ایک سال کی عمر میں ترقی پزیر ملک کے 6 ماہ کے بچے کے وزن سے بھی کم ہے
انہوں نے کہا کہ ان کچھ ایسے بچے بھی شامل ہیں ’جو اتنے کمزور ہیں کہ وہ حرکت بھی نہیں سکتے‘
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کو متعدد بحرانوں کا سامنا ہے جس میں خراب فصل، بینکاری اور مالیاتی بحران شامل ہے جبکہ یہاں کی 80 فیصد آبادی قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور خوراک اور ایندھن کی قیمت میں بھی اضافہ ہورہا ہے
34 میں سے 28 صوبوں میں غذائی قلت کی شرح بہت زیادہ ہے جہاں 35 سے زائد بچوں کو غذائیت کے علاج کی مدد کی ضرورت ہے
رمیز الاکباروف نے وضاحت دی کہ اگست کے وسط سے اب تک 34 صوبوں میں 2 ہزار 500 سے زائد غذائی کمی کا علاج کرنے والے مقامات پر غذائی قلت کا شکار 8 لاکھ بچوں کا علاج کیاگیا ہے، اور ہم نے رواں سال 32 ہزار متاثرہ بچوں کا علاج کرنے کا منصوبہ بنایا ہے