ذرا چار دہائی پہلے کے افغانستان کو یاد کریں۔ سوویت فوجیں قابض ہیں۔مجاہدین کو امریکی سی آئی اے، مصری و سعودی انٹیلیجینس اور آئی ایس آئی کے تعاون سے ہر طرح کے ہتھیاروں سے مسلح کیا جا رہا ہے۔
ان ہتھیاروں میں اسٹیٹ آف دی آرٹ کندھے سے فائر ہونے والے بلو پائپ اور اسٹنگر میزائل بانٹے جا رہے ہیں تاکہ سوویت فضائیہ کی کمر توڑی جا سکے۔ان مجاہدین کی غیر ملکی انسٹرکٹرز کے ہاتھوں تربیت ہو رہی ہے
نئے بدیسی جہادیوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ اگر کوئی غیرملکی مہمان بالخصوص خلیجی ریاستوں یا مصر، الجزائر سمیت شمالی افریقہ کی جواں پود اس مقدس جہاد میں حصہ لینا چاہتی ہے تو ان کے لیے ضیا حکومت کے دونوں بازو وا ہیں۔
اگر کوئی مخیر چندہ دینا چاہ رہا ہے یا کیمپ کا خرچہ اٹھانا چاہ رہا ہے یا مجاہدین کے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال کرنا چاہ رہا ہے تو خوش آمدید.. اور پھر یہ ہوا کہ سوویت یونین کو افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کرنا پڑا۔ ہر ملک نے کریڈٹ لیا کہ اسی نے سوویت یونین کی کمر توڑی ہے۔ اور پھر سوویت یونین انیس سو اکیانوے میں نقشے سے ہی غائب ہوگیا اور اس کی جانشینی روس کے حصے میں آئی
آج وہی روس اپنی سرحد سے متصل ایک اور افغانستان میں گھس چکا ہے۔ افغان روسیوں کے ہم نسل نہ تھے مگر نیا افغانستان نسلی اعتبار سے روسیوں کا سگا چچیرا ممیرا ہے۔ روس اور یوکرین کی فوجی طاقت میں پانچ ایک کا تناسب ہے۔ افغان زمین پہاڑوں سے اٹی ہوئی تھی۔ مگر یوکرین ایک لق و دق زرعی میدان کا نام ہے، جہاں ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں جس رفتار سے چاہیں دوڑ سکتے ہیں
روس کا خیال تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں دارالحکومت کیف پر قبضہ کر کے قصہ تمام کر دے گا۔ مگر تین ہفتے بعد بھی کیف روسی گھیرے میں ہونے کے باوجود مزاحمت کر رہا ہے
سبب یہ ہے کہ مغرب نے امریکی قیادت میں یہاں بھی چالیس برس سے آزمودہ افغان ماڈل اپنا لیا ہے۔ ماسکو کے اتحادی بیلا روس کے سوا جتنے بھی ممالک کی مشرقی سرحد یوکرین سے ملتی ہے (پولینڈ، ہنگری، مالدووا، سلواکیہ، رومانیہ) ان پانچوں ہمسایہ ممالک میں لگ بھگ چالیس لاکھ یوکرینی پناہ گزین پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے ستر فیصد پناہ گزینوں نے پولینڈ کا رخ کیا ہے۔ (چالیس برس پہلے اتنے ہی پناہ گزین پاکستان اور ایران کے کیمپوں میں رکھے گئے تھے)
ان پناہ گزینوں کی ریاستی سے لے کر عوامی سطح تک ہر طرح کی آؤ بھگت ہو رہی ہے، جیسے سوویت قبضے کے ابتدائی دنوں میں افغان پناہ گزینوں کی ہوئی تھی۔ روسی آرمڈ فورس اور فضائیہ کے خلاف مزاحمت کے لیے یوکرینی دستوں کو ہر طرح کا جدید ہلکا اسلحہ اور میزائیل فراہم کیے جا رہے ہیں۔ جوش کا یہ عالم ہے کہ صدر بائیڈن نے امریکی کانگریس سے یوکرین کی مدد کے لیے دس ارب ڈالر کے پیکیج کی درخواست کی۔ کانگریس نے ساڑھے تیرہ ارب ڈالر کا پیکیج منظور کر لیا
بیرونِ ملک مقیم لگ بھگ ساٹھ ہزار یوکرینی باشندے لڑائی میں حصہ لینے کے لیے خود کو رجسٹر کروا چکے ہیں یا وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔جب کہ بیس ہزار غیرملکی مجاہدین بھی اپنے یوکرینی بھائیوں کی مسلح مدد کے لیے بیتاب ہیں۔ ناٹو کے انسٹرکٹرز ان مجاہدین کو ہتھیار چلانے کی تربیت دے رہے ہیں۔ کچھ تربیتی کیمپ یوکرین کے اندر ہیں، ان میں سے ایک روسی فضائیہ نے تباہ کر دیا ہے۔ کئی کیمپ ہمسایہ ممالک کی سرحدی پٹی میں قائم کیے گئے ہیں۔ اگر ان پر روس حملہ کرتا ہے تو یہ حملہ ناٹو پر تصور ہوگا۔ لہٰذا جس طرح سوویت یونین نے پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائی نہیں کی، اسی طرح پوتن کا روس بھی سرحدی لکیر عبور نہیں کرے گا
جن غیرملکی مجاہدین نے خود کو یوکرین کے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے وقف کروایا ہے ان میں اکتیس فیصد امریکی نوجوان ہیں۔ اٹھارہ فیصد برطانوی، سات فیصد جرمن، ساڑھے چار فیصد کینیڈین اور لگ بھگ تین فیصد بھارتی نوجوان ہیں۔ جی ہاں آپ نے ٹھیک سنا بھارتی نوجوان۔ اس کے علاوہ کروشیا، اسرائیل، لٹویا، ڈنمارک، ہالینڈ اور پولینڈ کے مجاہدین بھی یوکرینی بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑنا چاہتے ہیں
ان میں سے اکثر مجاہدین انتہائی دائیں بازو سے متاثر نوجوان ہیں، جو سفید فام، سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والے یوکرینی بھائیوں بہنوں کو انہی کے ہم نسل گمراہ روسی وحشیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے
یورپی اور امریکی مجاہدین تو یوکرین کی جانب سے لڑنا چاہتے ہیں مگر روس نے بھی اپنے حامی غیر ملکی مجاہدین کو خوش آمدید کہنا شروع کیا ہے۔ چیچن تو خیر روس کے اپنے ہی ہیں لیکن روسی مدد کے احسان مند شام سے بھی بشار الاسد کے حامی بعثی مجاہدین جوق در جوق روس کی جانب سے لڑنے کے لیے خطے میں تشریف لا رہے ہیں۔جب کہ لیبیا سے بھی متعدد مجاہدین روس کے لیے روانہ ہو چکے ہیں
جب افغان عرب مجاہدین جہاد کے لیے جوق در جوق پاکستان جا رہے تھے تو ان کے وطن پر قابض فسطائی حکومتیں خوش تھیں کہ بجائے یہ کہ جوشیلے نوجوان ہمارے لیے دردِ سر بنیں ان کا افغانستان جانا ہی اچھا ہے۔ مگر یہ بات آسانی سے نظر انداز کر دی گئی کہ جب یہ مجاہدین انتہائی تربیت یافتہ اور مستعد حالت میں وطن واپس لوٹیں گے تب کیا ہوگا؟
اس کا پہلا مظاہرہ نوے کی دہائی میں الجزائر میں دکھائی دیا، جب عام انتخابات میں اسلامک فرنٹ کی جیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔دس برس کے دوران لگ بھگ ایک لاکھ اموات ہوئیں۔ مسلح فوج کے مقابلے میں جن لوگوں نے سب سے بہتر عسکری کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وہ افغانستان سے لوٹنے والے انتہائی جری، تربیت یافتہ عرب مجاہدین تھے
مصر میں ایمن الزواہری نے جما الاسلامیہ کے نام پر عرب افغانوں کو ملحد مغرب نواز آمریتوں کا سر اتارنے کے لیے تیار کیا۔ پھر آگے چل کے انہی میں سے القاعدہ، الشہاب، بوکو حرام، ایسٹرن ترکستان فرنٹ اور داعش نکلے
گویا ایک جنگ جیتنے کے لیے پرائیویٹ جہاد کی جو پالیسی مغرب، خلیجی ریاستوں اور اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں نے اپنائی۔ اس پالیسی نے دبا ہوا پٹارہ اور پنجرہ اور جہنم کا دروازہ کھول دیا
اور پھر نائن الیون کے نتیجے میں ہاتھ سے نکل جانے والوں کے قلع قمع کے لیے دھشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا ارب ہا ارب ڈالر کا کاروبار شروع ہو گیا اور اس کاروبار کی بنیادوں میں عراق ، افغانستان اور یمن سمیت متعدد ممالک کا انجر پنجر ڈالا گیا اور لاکھوں بے گناہ اس بیس سالہ جنگ کا یہاں سے وہاں تک لقمہ بنے
یوکرین کی لڑائی کی نج کاری کا بھی یہی نتیجہ نکلے گا۔بشرطیکہ یوکرین کا بحران طول پکڑ گیا۔ یہی مجاہدین جب اپنے اپنے ملکوں کو لوٹیں گے تو نیو نازیوں اور انتہائی دائیں بازو کے نسل پرست خون میں ایک نئی حرارت بھر جائے گی اور پھر لگ پتہ جائے گا ان ریاستوں کو بھی، جنہیں آج اتنا ہی جوش آ رہا ہے، جب سوویت یونین افغانستان میں گھسا تھا
اگر ان گورے مجاہدین نے ایک نیا نائن الیون یا اس سے بھی بڑا کوئی کانڈ کر دیا تو کیا دھشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا پارٹ ٹو دیکھنے کو ملے گا؟ ہرگز نہیں!
پارٹ ون میں جو لاکھوں لوگ کام آئے ان کے بالوں، جلد اور آنکھوں کا رنگ اور طرزِ حیات مختلف تھا۔ مگر یوکرین میں داخل ہونے والے مجاہدین دھشت گرد نہیں کہلائے جائیں گے۔ انھیں نفسیاتی طور پر غیر مستحکم، انفرادی وارداتی ذمے دار یا کسی مخصوص تنظیم کے گمراہ آلہِ کار کے طور پر دیکھا جائے گا۔ انہیں زیادہ سے زیادہ عام عدالتیں لمبی قید کی سزا سنا دیں گی۔ ان کے لیے اب کوئی نیا گوانتانامو تو بننے سے رہا..
مورل آف دی اسٹوری: کسی سابق تجربے سے کچھ نہیں سیکھا جا سکتا۔ ہر بار یہ سوچ کے وہی تجربہ دھرایا جاتا ہے کہ اس بار وہ نتیجہ نہیں نکلے گا، جو پچھلی بار نکلا تھا
اسی سوچ میں ریاستی، نظریاتی اور کارپوریٹ دھندے کی بقا اور نفع ہے!
بشکریہ : ایکسپریس نیوز