نیویارک – روز مرہ زندگی میں ہمارا واسطہ بہت ساری ایسی بیرونی چیزوں سے پڑتا ہے (جو کہ کیمیائی اعتبار سے پروٹین ہوتی ہیں) جن کے مضر اثرات سے بچاؤ کیلئے ہمارا مدافعتی نظام فورا کام شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے مدافعتی نظام کمزور پڑ جائے تو مضر چیز کے ساتھ غیر مضر چیزیں بھی ہمارے جسم میں ایک ردعمل پیدا کرتی ہیں جو مختلف علامات کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو الرجی کہا جاتا ہے۔الرجی کی مختلف اقسام ہیں: جیسے سانس کی الرجی، ناک کی الرجی، آنکھوں کی الرجی، خوراک کی الرجی وغیرہ وغیرہ
بہار کے موسم میں پھولوں کے ذرات، جنہیں ہم زردانے بھی کہتے ہیں، ہوا میں بہت زیادہ مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ زردانے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور انہیں صرف مائیکروسکوپ کی مدد سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ زردانے جب حساس لوگوں کے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو یہ جسم میں مختلف علامات پیدا کرتے ہیں۔ اسے پولن الرجی کہتے ہیں ۔ سادہ قسم کے پودوں جیسے جھاڑیوں ، گھاس، درخت وغیرہ کے زردانے الرجی کا سبب بنتے ہیں۔ زردانے ہوا، پانی، کیڑے مکوڑوں یا جانوروں کے بالوں مین پھنسے ہونے کی وجہ سے پھیل سکتے ہیں
پولن کی مقدار گرم اور خشک دنوں میں زیادہ ہوتی ہے جبکہ نمی والے دن انکی مقدار کم ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ پولن صبح پانچ بجے سے دس بجے تک بہت زیادہ مقدار میں زمینی سطح پر ہوتا ہے اسی طرح شام پانچ بجے سے آدھی رات تک پولن کی تعداد زیادہ ہوتی ہے
پولن الرجی کا موسم عموماً فروری کے آخری ہفتے سے شروع ہوکر مئی کے پہلے ہفتے تک رہتا ہے۔ ان دنوں میں چونکہ درختوں اور پودوں پر پھول لگ رہے ہوتے ہیں اس وجہ سے ہوا میں زردانے کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے جس کے باعث ہسپتالوں میں پولن کےمریضوں کا رش بڑھ جاتا ہے
اب ایک نئی تحقیق کے بعد الرجی سے متاثر ہونے والے افراد کو حفاظتی بندوبست کرنے کے لیے تنبیہہ کی گئی ہے، کیونکہ نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پولن کا موسم زیادہ طویل اور کئی گنا سخت ہونے والا ہے
تازہ ترین مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا گاڑیوں، پاور پلانٹس اور دیگر ذرائع سے بلند شرح کے ساتھ اخراج جاری رہتا ہے تو امریکا کو اس صدی کے دوران پولن کی مجموعی مقدار میں 200 فیصد تک کے اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا
ایسی صورت حال میں عام طور پر پولن کا موسم چالیس دن تک پہلے شروع ہو کر آج کی نسبت اُنیس دن تک زیادہ طویل ہوگا
ماحولیاتی سائنس دانوں نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ ماحول اور آب و ہوا پودوں اور درختوں پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔ اکثر تحقیقی مطالعے پولن کو بحیثیت مجموعی اپنی تحقیق کا موضوع بناتے ہیں جبکہ ماہرین نے ایک درجن سے زائد مختلف قسم کے گھاس اور درختوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ ان کا پولن امریکا کے مختلف حصوں کو کس طرح مختلف انداز میں متاثر کرے گا
مثال کے طور پر بلوط اور صنوبر کی نسل سے تعلق رکھنے والے درختوں کی تعداد شمال مشرقی علاقوں میں بڑھے گی، لیکن الرجی کے زور میں تقریباً ہر جگہ اضافہ دیکھنے کو ملے گا، جس کے منفی نتائج انسانی صحت اور معیشت کو متاثر کریں گے
اگر یہ سنتے ہی آپ کا سر چکرانے لگا ہے تو ماہرین پاس کم از کم پولن کی لہر آنے سے پہلے اس کے بارے میں جان سکنے کے حوالے سے اچھی خبر بھی ہے۔ وہ اس تحقیق کی کوکھ سے ایسا ماڈل برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو مقامی سطح پر پولن کی زیادہ صحیح پیشگوئی کرسکے
پولن میں اضافے کا سبب کیا ہے؟
گھاس اور پودوں سے جنم لینے والے گرد جیسے دانے پولن دراصل نر جینیاتی مواد کے حامل ہوتے ہیں، جن کا مقصد پودے کی نسل بڑھانا ہوتا ہے
نر جینیاتی مواد پر مبنی پولن کو آپ جانوروں کے اسپرم سے مشابہ سمجھ سکتے ہیں، جو پودے کے مادہ حصے کی طرف اڑ کر یا پرندوں اور مکھیوں وغیرہ کے پیروں سے چپک کر جاتا ہے اور وہاں پر دونوں کا ملاپ ہو کر نیا پودا تشکیل پاتا ہے
پولن کی مقدار کا انحصار پودے کی بڑھوتری پر ہوتا ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ بہت سے علاقوں میں پودوں کی نشوونما بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں پولن کی پیداوار بھی زیادہ ہوگی
لیکن درجہ حرارت دوسری بہت سی وجہوں میں سے ایک وجہ ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مستقبل میں پولن کی مقدار میں اضافے کا سب سے بڑا سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑھتا ہوا اخراج ہوگا
زیادہ درجۂ حرارت پودوں کی بڑھوتری کے موسم میں اضافہ کرے گا، جس کے نتیجے میں انہیں پولن کے اخراج اور دوبارہ پیدا کرنے کا زیادہ وقت ملے گا
دریں اثنا کاربن ڈائی آکسائیڈ فوٹوسنتھیسز کے لیے زیادہ ایندھن فراہم کرے گی، جس کے سبب پودوں کے قد کاٹھ میں زیادہ اضافہ ہوگا اور وہ بھاری مقدار میں پولن خارج کریں گے۔ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ مستقبل میں درجہ حرارت کی نسبت کاربن ڈائی آکسائڈ کی بڑھتی ہوئی سطح پولن میں اضافے کا بڑا سبب ہو سکتی ہے
پولن کی مقدار میں اضافہ مختلف علاقوں میں مختلف ہوگا
ماضی کے بہت سے جائزوں کی طرح ہر قسم کی پولن کو شامل تحقیق کرنے کے بجائے مایرین نے پولن کی محض پندرہ مختلف اقسام کا باریک بینی سے مطالعہ کیا
عام طور پر پولن کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب سردیوں اور بہار کے اختتامی دنوں میں پت جھڑ شروع ہوتی ہے
حالانکہ شہتوت کی طرح اور بھی ایسے درختوں کی کمی نہیں جو الرجی کا سبب بنتے ہیں لیکن اس فہرست میں سب سے اوپر ایلڈر، بید اور بلوط کے درخت ہیں۔ اس کے بعد گرمیوں میں گھاس اور اس کے فوری بعد گرمیوں کے اختتامی ایام میں ریگ وڈ نامی درخت پولن پھیلانا شروع کرتا ہے
جنوب مشرقی علاقوں میں پہاڑی دیودار اور جونیپر (صنوبر کے خاندان سے تعلق رکھنے والا درخت) جیسے سدا بہار درخت جنوری میں یہی کام کرتے ہیں۔ امریکی ریاست ٹیکسس میں گھاس سے ہونے والی الرجی کی جگہ ’دیودار سے ہونے والی الرجی‘ لے لیتی ہے
ماہرین نے مشاہدہ کیا ہے کہ شمال مشرقی علاقوں میں درجہ حرارت اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے کے ساتھ الرجی پیدا کرنے والے بہت سارے درختوں کے پولن گرانے کے موسم اوورلیپ ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر بلوط کے درخت پہلے اور اس کے بعد بید پولن خارج کیے کرتے تھے۔ اب ان کے پولن کا موسم آپس میں جڑا ہوتا ہے
عمومی طور پر جنوب کی نسبت شمال میں پولن کا موسم زیادہ تبدیل ہوگا کیونکہ شمالی علاقوں کے درجہ حرارت میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے
فلوریڈا، جارجیا اور جنوبی کیرولینا سمیت مشرقی علاقے مستقبل میں گھاس اور جھاڑیوں کے پولن میں اضافے کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ایلڈر کے پولن سیزن کی جلد شروعات کے سبب بحرالکاہل کے شمال مغرب میں ممکنہ طور پر پولن کا موسم ایک ماہ پہلے ہی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جائے گا
امید کی کرن: پولن کی پیش گوئی کا عمل بہتر بنایا جا سکتا ہے!
فی الحال پولن کی پیش گوئیاں نہایت وسیع تخمینہ پیش کرتی ہیں۔ ایک مسئلہ پولن کی مقدار کا تعین کرنے والے مشاہداتی مراکز کی ناکافی تعداد کا ہے۔ زیادہ تر کا انتظام الرجی کلینکس کے پاس ہے اور ملک بھر میں تقسیم کیے گئے ایسے مراکز کی تعداد سو سے بھی کم ہے۔ ہمارے رہائشی علاقے مشی گن میں ایسا کوئی ایک بھی اسٹیشن موجود نہیں
مختلف اقسام کی پولن کی پیمائش دراصل بہت محنت طلب کام ہے۔ نتیجتاً موجودہ پیش گوئیاں بہت سے ناقص اندازوں سے بھری ہوتی ہیں۔ یہ زیادہ تر کسی اسٹیشن کے ماضی میں کیے گئے مشاہدے اور موسم کی پیش گوئی پر منحصر ہوتی ہیں
اگر مارین کا ماڈل پہلے سے موجود نظام کا حصہ بن کر کام کرنے لگے تو ملک بھر میں پولن کی زیادہ بہتر پیش گوئی فراہم کر سکتا ہے
ماہرین سیٹلائٹ ڈیٹا اور زمینی جائزوں کی مدد سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ درختوں کی نشوونما کہاں پہنچی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب پولن پھوٹتا ہے تب درجۂ حرارت کس طرح اثرانداز ہوتا ہے، جسے ہم پولن کی فینالوجی کہتے ہیں۔ ان معلومات کے ساتھ ہوا، نمی اور بارش جیسے موسمیاتی عوامل کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس بات کی زیادہ درست پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ پولن کی کتنی مقدار ہوا میں شامل ہوئی اور موسمیاتی ماڈلز یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کس طرح آگے بڑھتے ہوئے پھیل رہی ہے
ان تمام معلومات کی بدولت ماہرین دیکھ سکتے ہیں کہ کن علاقوں میں کس وقت پولن کا سفر جاری ہے، سو الرجی سے متاثر ہونے والے افراد پہلے سے اپنی علاقائی صورت حال سے آگاہ ہو سکیں گے
ماہرین فی الحال ایک نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن لیب سے ان معلومات کو ایسے آلات کے ساتھ ضم کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں جو ہوا کے معیار کی پیشین گوئی کرتے ہیں
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پولن کے حوالے سے بہت سے گوشے ابھی تک واضح نہیں ہوئے۔ مثال کے طور پر سائنس دان پوری طرح نہیں جانتے کہ بعض پودے ایسے ہیں جو بعض برسوں میں زیادہ پولن پیدا کرتے ہیں اور بعض میں کم۔ ایسے ماڈلز کے ذریعے بھی یہ جاننے کا کوئی کارگر طریقہ نہیں۔ یہ بھی پوری طرح واضح نہیں کہ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح اچانک بہت بلند ہو جاتی ہے تو پودوں کا ردعمل کیا ہوگا۔ ریگ ویڈ نامی پودے اور رہائشی مقامات پر موجود درختوں کی تعداد کا تعین بھی ایک مشکل کام ہے۔ جڑیوں پر بہت کم سروے ایسے کیے گئے ہیں جو بتائیں کہ امریکا میں یہ کن مقامات پر بڑھ رہی ہے اور ان میں بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے
پولن کی سطح پہلے ہی بلند ہو رہی ہے
2021 کے ایک جائزے کے مطابق پولن کا موسم بحیثیت مجموعی 1990 کے مقابلے میں تقریباً 20 دن زیادہ طویل تھا اور پولن کی مقدار میں 21 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔
مستقبل میں پولن کی سطح میں ہونے والا اضافہ محض گلے کی خراش یا معمولی سر درد کی نسبت کہیں بڑے پیمانے پر متاثر کرے گا
موسمیاتی الرجیز تقریباً 30 فیصد آبادی کو متاثر کرتی ہیں اور صحت بحال کرنے کے لیے خرچ ہونے والی رقم سے لے کر کام کاج سے ناغہ کرنے تک ان کے باقاعدہ معاشی اثرات ہوتے ہیں.