سنہرا پھول (جاپانی ادب سے منتخب شاہکار افسانہ)

وانگ ہو کایدو

جب ڈاکٹر شویامی میری آنکھ کا قرنیہ تبدیل کرنے کے لیے آپریشن کی تیاری کر رہے تھے، اس وقت میں ہوش میں تھا۔ انہوں نے میری آنکھ کے اردگرد کے حصے کو ٹیکے لگا کر پوری طرح سُن کردیا تھا، مگر میرے ہوش و حواس مکمل طور پر برقرار تھے۔ میں آپریشن میں کام آنے والے آلات کی کھنکھناہٹ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شو یامی کی باتیں بھی صاف سن سکتا تھا۔

میری دائیں آنکھ میں گزشتہ تین برس سے سوجن تھی۔ جب میں نے جنرل اسپتال میں معائنہ کرایا، اس وقت مجھے اس آنکھ سے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ میری بائیں آنکھ پہلے ہی ناکارہ ہوچکی تھی، گو بظاہر وہ ٹھیک نظر آتی تھی۔
ڈاکٹروں نے مکمل معائنے کے بعد بتایا کہ میں قرنیے کی سوجن کا شکار ہوں۔ یہ چھوت کا روگ ہے اور اس کے نتیجے میں آنکھ کی بینائی ضائع ہوسکتی ہے۔

”شاید تمہیں دوسروں کا تولیہ استعمال کرنے یا پھر پیراکی کے تالاب میں نہانے سے یہ مرض لاحق ہوا ہے“ ایک ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد اپنا خیال ظاہر کیا

”میں ایک فوجی اسکول میں طلبہ کو پیراکی سکھاتا ہوں“ میں نے اسے بتایا…

”بس تو پھر یہ مرض تمہیں تالاب کے پانی سے لگا ہے“ ڈاکٹر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا

اس معائنے کے بعد ایک سال گزر گیا۔ اس دوران میری بینائی بالکل ہی جواب دے گئی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اب اس کا واحد علاج قرنیے کی تبدیلی ہے۔ قرنیہ تبدیل کر دیا جائے تو میں پھر سے دیکھنے لگوں گا

گھر جاکر جب میں نے یہ بات اپنی بیوی کو بتائی تو وہ فوراً اپنی کل جمع پونجی نکال کر لے آئی، جو تقریباً ایک ہزار ین تھی۔ یہ رقم اس نے مختلف کام سرانجام دے کر بڑی محنت سے جمع کی تھی
”اگر یہ رقم ناکافی رہی تو ہم مزید رقم کی فراہمی کا انتظام کریں گے۔ تمہیں آپریشن ضرور کرالینا چاہیے“ اس نے نرمی سے کہا، ”مجھ جیسی ان پڑھ اور جاہل عورت کی کوئی بات نہیں، اگر یہ مسئلہ میرے ساتھ ہوتا تو شاید مجھے ذرا بھر فکر نہ ہوتی، کیونکہ ایک جاہل اور نابینا شخص میں کوئی فرق نہیں… لیکن تم تو پڑھے لکھے ہو، تمہارے لیے بینائی اشد ضروری ہے“

میں نے اپنا نام ڈاکٹر شویامی کی ویٹنگ لسٹ میں لکھوا دیا۔ ایک ماہ بعد ڈاکٹر نے فون کرکے اطلاع دی کہ ایک ڈرائیور کار کے خطرناک حادثے کا شکار ہوگیا، اس نے مرنے سے قبل اپنی بیوی کو وصیت کی تھی کہ اس کے جو جسمانی اعضاء فروخت ہو سکیں تو انہیں بیچ دیا جائے تاکہ وہ کسی کے کام آجائیں اور ان سے ملنے والی رقم سے بیوی بچوں کی ضروریات بھی آسانی سے پوری ہوسکیں
ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا میں ڈرائیور کی بیوہ کے لیے پانچ سو ین اور آپریشن کے اخراجات ڈھائی تین سو ین کا انتظام کرسکتا ہوں؟
میں نے فوراً اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ اس پر ڈاکٹر شویامی نے مجھے دوسرے ہی دن اسپتال میں داخل ہوجانے کے لیے کہا.

میں بے حد خوش قسمت تھا کہ اتنی جلد قدرت نے قرنیے کا انتظام کر دیا تھا۔ اکثر ضرورت مندوں کو کئی کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے، تب کہیں جاکر انہیں قرنیہ ملتا ہے۔ میں اپنی بیوی کا بھی بہت ممنون تھا، جس کی وجہ سے یہ آپریشن ممکن ہوسکا۔ اگر وہ رقم کا انتظام نہ کرتی تو یقیناً ایسا ممکن نہ ہوتا….

آپریشن کے بعد مجھے اسٹریچر پر لٹاکر باہر لایا جارہا تھا، تو میری بیٹی نے دھیرے سے میرے کان میں کہا ”ابو…. سب کچھ آسانی سے ہوگیا۔ امی بھی آنا چاہ رہی تھیں مگر کسی انجانے خوف کی وجہ سے نہیں آسکیں“

”تم اپنی ماں سے کہہ دینا کہ اس کے آنے کی ضرورت نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں، وہ کسی بات کی فکر یا خوف میں مبتلا نہ ہو“

اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اپنی بیوی کا بڑا احسان مند تھا۔ اس نے جس خلوص سے میری مدد کی تھی، اس نے میرا دل جیت لیا تھا۔ اس کے باوجود میری خواہش تھی کہ وہ اسپتال نہ ہی آئے تو بہتر ہے

میری عمر اُنیس سال تھی، جب والدین کی خواہش اور پسند کے مطابق میری شادی ہو گئی۔ ان دنوں اپنی پسند کی شادی کا رواج عام نہیں تھا۔ زیادہ تر شادیاں والدین کی خواہش کے مطابق ہوا کرتی تھیں۔ میرے والد اور سسر دونوں آپس میں بچپن کے دوست تھے۔ ایسے دوست کہ اُن کی دوستی کی مثال دی جاتی۔ دونوں اپنے بچوں کی پیدائش سے قبل فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ اپنی اولاد کی شادی آپس ہی میں کریں گے۔ اس طرح دوستی کا ناتہ رشتے داری میں تبدیل ہوجائے گا۔ یوں جو لڑکی میری بیوی بنی، وہ میرے والد کے دوست کی بیٹی تھی۔ اتفاق سے میں نے شادی کے قبل اسے دیکھا تک نہ تھا کیونکہ وہ بچپن سے خالہ کے گھر رہی تھی اور وہیں تعلیم پائی تھی

شادی کی رسومات ختم ہونے کے بعد ہم رخصتی کروا کے گھر آگئے۔ کچھ رسمیں یہاں بھی انجام پائیں اور رات گئے ہمیں خوبصورتی سے سجے ایک کمرے میں بھیج دیا گیا۔ اس رات جب گھونگٹ اُٹھا کر میں نے اپنی دلہن کا چہرہ دیکھا تو سینے میں دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا

اس کے چہرے پر چیچک کے گہرے داغ تھے۔ پچکی ہوئی چپٹی ناک اور آنکھیں سوجی سوجی سی…. وہ اٹھارہ سالہ لڑکی ہوتے ہوئے بھی اپنے چہرے مہر ے سے چالیس سال کی ادھیڑ عمر عورت نظر آرہی تھی!

میں دوڑ کر اپنی والدہ کے کمرے میں گیا اور اُن کی آغوش میں گر کر رونے لگا۔ وہ ماں تھیں، فوراً سمجھ گئیں کہ مجھے دلہن پسند نہیں آئی۔ تب پیار سے انہوں نے مجھے سمجھایا کہ میں اپنی قسمت پر شاکر رہوں اور اسے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کرلوں۔ ماں نے کہا:
”بیٹے! گھریلو لڑکیاں قسمت والوں ہی کو ملتی ہیں، تیز، طرار خوبصورت لڑکیاں کبھی گھر بار چلانے میں دلچسپی نہیں لیتیں اور انجام کار ایسی شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں۔ پھر زندگی بھر پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا“

لیکن ان کے سمجھانے، بجھانے سے میری سوچ اور جذبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس رات کے بعد میں نہ تو اپنی بیوی کے کمرے میں گیا اور نہ اس سے باتیں کیں

فوج میں ملازمت کرنے کی وجہ سے میں کسی اور شہر میں مقیم تھا۔ جب چھٹیاں ختم ہوئیں، تو میں تنہا ہی ملازمت پر چلا گیا، بیوی کو ہمراہ نہیں لیا۔ اگلی تعطیلات میں تو میں نے گھر آنے سے بھی انکار کردیا… تب مجبوراً والد صاحب نے میرے ایک عزیز کو بھیجا، جو میرا بے تکلف دوست بھی تھا۔ وہ مجھے سمجھا بجھا کر گھر لے آیا۔
میں جب گھر پہنچا، تو میری بیوی رات کا کھانا تیار کررہی تھی۔ اس نے بڑی چاہت سے میری طرف دیکھا اور شاید مسکرائی بھی… لیکن میں اس کی طرف توجہ دیے بغیر والدہ کے کمرے میں چلا گیا۔ کھانے کے بعد تنہائی میں ماں نے مجھے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا:
”بیٹے! تم بہت ہی ناروا سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہو…. تم نے تمام اخلاقی حدود توڑ دی ہیں۔ تمہاری بیوی خوبصورت نہیں لیکن وہ دل کی بہت حسین اور نیک ہے“

”شاید آپ کی بات ٹھیک ہو“ میں نے تنگ آ کر جواب دیا ”تب ہی تو آپ اسے بہو بناکر لائی ہیں“

ماں کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔ وہ کمزور سی آواز میں بولیں ”بیٹے! وہ بہت سمجھدار اور ہر بات کا خیال رکھنے والی لڑکی ہے۔ اسے یہاں آئے سال بھر سے زیادہ ہورہا ہے۔ اس نے گھر گرہستی خوب سنبھال لی ہے۔ وہ خوش اخلاق اور ہنر مند ہے۔ اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہی نہیں بلکہ انہیں بخوبی نبھاتی اور پورا بھی کرتی ہے۔ فارغ وقت میں سلائی، کڑھائی بھی کرلیتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائی… اس نے کبھی تمہارے سلوک پر شکوہ نہیں کیا… نہ ہی میں نے اسے کبھی آنسو بہاتے دیکھا، وہ صابر اور شاکر لڑکی ہے، ممکن ہے وہ چوری چھپے روتی رہتی ہو، شوہر کے ہوتے ہوئے بھی وہ بیوہ جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے.. بیٹے! کچھ تو ہوش سے کام لو۔ ذرا دیر کے لیے خود کو اس کی جگہ رکھ کر سوچو۔ اگر تمہارے ساتھ یہ سلوک ہوتا تو….“

ماں کے سمجھانے بجھانے پر آخر میں اس کے کمرے میں جانے اور سونے لگا۔ لیکن میرے سلوک اور جذبات میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ وہ میرے سامنے ہمیشہ سر جھکا کر نرمی سے بات کرتی۔ اگر کسی بات پر میں اختلاف یا ناراضی کا اظہار کرتا تو وہ بُری طرح سہم جاتی اور اس کا سر کچھ اور جھک جاتا۔ وہ مجھے گوشت پوست کی انسان نہیں، بے جان سا مشینی کھلونا محسوس ہوتی۔ جیسے اس کی اپنی کوئی خواہش، کوئی پسند، کوئی جذبہ نہیں یہاں تک کہ اسے غصّہ بھی نہیں آتا تھا

رفتہ رفتہ ہماری شادی کو تیس سال گزر گئے۔ ان برسوں میں شاید ہی کبھی میں اپنی بیوی کو دیکھ کر مسکرایا ہوں۔ نہ کبھی اسے ساتھ لے کر کہیں گھومنے پھرنے یا خریداری کرنے گیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس دوران کئی مرتبہ میں نے دل ہی دل میں یہ دعا مانگی کہ کاش وہ مرجائے۔ سردمہری کے باوجود میری بیوی خدمت گزار، خلوص اور اپنے جذبات و خیالات میں ثابت قدم رہی۔ ایسی عورت کی مثال ملنی مشکل ہی نہیں ناممکن تھی

ابتدا میں فوج میں میرا عہدہ معمولی قسم کا تھا۔ عہدے کے لحاظ سے تنخواہ بھی کم تھی. مکان کا کرایہ اور کھانے پینے کے اخراجات بمشکل تمام پورے ہوتے۔ اس دوران ہمارے ہاں بیٹی پیدا ہوئی، بیٹی بھی ایسی جو عموماً بیمار رہتی… اس کے علاج معالجے پر بھی کافی رقم اُٹھ جاتی۔ یہ حالت دیکھتے ہوئے میری بیوی نے فارغ اوقات میں کچھ کام کرکے رقم کمانے کا سوچا۔ اس نے تنکوں کی مدد سے ٹوپیاں اور چٹائیاں بُننا اور کپڑے سینا شروع کیا…

کچھ برسوں بعد میرا تبادلہ ساحلی علاقے میں ہو گیا، تو وہاں اس نے مچھلیاں پکڑنے کا جال بُننا سیکھا کیونکہ وہاں مچھیروں کی تعداد کافی تھی۔ اس کے بُنے ہوئے جال اچھی قیمت پر آسانی سے فروخت ہوجاتے۔ پھر ہم جنوبی جاپان کے ترقی یافتہ شہر میں پہنچے، جہاں نمائشی اشیاء اور سجاوٹ میں کام آنے والی چیزوں کی مانگ تھی۔ اس نے برتنوں پر پھول، پتیاں اور نقش و نگار بنانے کا کام سیکھ لیا اور اس کام کے ذریعے گھریلو اخراجات کے لیے رقم کمانے لگی

میں چاہتا تو رہنے کے لیے ہمیں کوئی کوارٹر بھی مل جاتا، مگر اس کے لیے خود میں نے کوشش نہیں کی۔ دراصل میں نہیں چاہتا تھا کہ ہم وہاں رہیں اور میرے ساتھی افسر میری بیوی کو دیکھیں…

اب ہمارے یہاں دوسرا بچہ بھی ہوچکا تھا۔

میں عموماً اپنے گھر سے دور ہی رہتا…. میں نے کبھی گھریلو ذمہ داریوں کی فکر نہیں کی کیونکہ مجھے علم تھا کہ میری بیوی ہر معاملے کو سنبھالنے، بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش اور مسائل سلجھانے میں میری محتاج نہیں۔

آنکھ کے آپریشن کے بعد میری بیٹی ریڈیو لے آئی تاکہ بستر پر تنہا لیٹے مجھے بوریت نہ ہو اور میرا دل بہلا رہے۔ ابھی کئی دنوں تک آنکھوں پر پٹی بندھی رہنی تھی۔ میرے پاس خیالات کے گھوڑے دوڑانے اور سوچنے کے لیے بڑا وقت تھا۔ بار بار مجھے اپنی بیوی کا خیال آتا رہا۔ میں نے بیٹی کی زبانی کہلوا دیا تھا کہ اسے اسپتال آنے کی ضرورت نہیں۔
دو ہفتے بعد مجھے بتایا گیا کہ جلد ہی آنکھوں کی پٹی کھول دی جائے گی…. یہ سن کر میں خوشی سے نہال ہو گیا۔
میں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بیٹی سے کہا ”میں اسپتال سے فارغ ہوکر سیدھا اس شخص کی قبر پر جاؤں گا، جس کا قرنیہ میری آنکھ میں لگا ہے“

تاہم دل ہی دل میں کچھ کچھ خوفزدہ بھی تھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ قرنیے کا ہر آپریشن کامیاب نہیں ہوتا، بعض بگڑ بھی جاتے ہیں۔ جب پٹی کھولی گئی تو مجھ میں آنکھ کھولنے کی ہمت نہیں تھی۔ ڈاکٹر کے کہنے پر ڈرتے ڈرتے دھیرے سے دائیں آنکھ کھولی….
”کیا تمہیں روشنی نظر آرہی ہے…؟“ سوال ہوا

”ہاں… اوپر کی طرف سے روشنی نظر آرہی ہے“ میں نے جواب دیا

”ٹھیک ہے… یہ چھت پر بلب لگا ہے“ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے اطمینان کا اظہار کیا اور پھر میرا شانہ تھپتھپا دیا۔ اس کا مطلب تھا کہ آپریشن کامیاب رہا

آواز آئی ”ایک ہفتہ بعد تم گھر جاسکو گے“

اس ایک ہفتے کے دوران روزانہ میری آنکھ کا معائنہ ہوتا رہا۔ پہلے پہل کچھ دھندلی پرچھائیاں دکھائی دیتی تھیں۔ پھر میں کسی کا اُٹھا ہوا ہاتھ دیکھ کر انگلیوں کی صحیح تعداد بتانے لگا… جس دن مجھے گھر جانے کی اجازت ملی، اس دن میں کمرے کی ہر چیز بخوبی دیکھنے لگا تھا۔
میری بیٹی مجھے لینے آئی تو اس نے بتایا ”امی نے آپ کی صحت کی خوشی میں گھر کو نئے انداز سے سجایا ہے اور آپ کی پسند کے اچھے اچھے کھانے بھی تیار کیے ہیں“

”بلاشبہ وہ ایک اچھی بیوی اور بہت اچھی ماں ہے“ میرے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔ یہ الفاظ اس سے پہلے کبھی میرے منہ سے نہیں نکلے تھے

میں اور میری بیٹی اسپتال سے نکلے اور ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر پہنچ گئے۔ اندر داخل ہوئے تو میری بیوی باورچی خانے سے کچھ لیے باہر نکل رہی تھی۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اس نے اپنا سر جھکا لیا اور میرے قریب آکر آہستہ سے بولی ”آپ کو گھر آنا مبارک ہو…. آنکھ کی بینائی ملنا مبارک ہو….“

”میں تمہارا بے حد ممنون اور احسان مند ہوں۔ یہ بینائی مجھے تمہاری ہی وجہ سے ملی ہے….“

ازدواجی زندگی میں بیوی کے لیے یہ پہلا تعریفی جملہ تھا، جو میں نے اس کے سامنے ادا کیا۔ اس نے لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھ کر پلیٹ میز پر رکھ دی اور اپنی پیٹھ میری طرف کرکے دیوار کا سہارا لے لیا۔ فضا میں ایک ہلکی سی سسکی اُبھری جیسے وہ رو رہی ہو…

میں نے سوچا…. یقیناً یہ خوشی کے آنسو ہیں….
”تمہارے ان الفاظ سے مجھے سب کچھ مل گیا“ میری بیوی میری طرف دیکھے بغیر اپنی سسکیاں دباتے ہوئے بولی ”میں خوش ہوں کہ میری زندگی اور میری خدمت ضائع نہیں گئی۔ اب مجھے کسی بات کی تمنا نہیں، اب کوئی خواہش نہیں….“

اس دوران قریب کھڑی بیٹی ہماری باتیں سن رہی تھی۔ میں نے دیکھا، اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ اچانک وہ اپنی ماں کو جھنجھوڑتے ہوئے بولی ”آپ ابو کو بتا کیوں نہیں دیتیں، کہ ان کی آنکھ کے لیے قرنیہ آپ ہی نے دیا ہے….“

”اس میں بتانے والی کیا بات ہے پگلی….! میں نے وہی کیا، جو میرا فرض تھا… اس میں احسان والی تو کوئی بات نہیں“ کمزور سی آواز میں میری بیوی نے جواب دیا

میں نے آگے بڑھ کر تیزی سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا اور پھر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
اس کی دائیں آنکھ میں پتلی کی جگہ سرخ دھبہ نظر آرہا تھا۔ میں نے کانپتی ہوئی آواز میں پہلی مرتبہ اسے اس کے نام سے مخاطب کیا

اس کے نام کا مطلب ہے ”سنہرا پھول….“

پھر اس سے ملتجیانہ انداز میں کہا ”یہ تم نے کیا کیا….؟ تم نے ایسا کیوں کیا….؟“

”اس لیے کہ آپ میرے شوہر ہیں اور ایک بیوی کی ساری کائنات شوہر ہی ہوتا ہے“
اس نے بڑی سادگی سے کہا۔ یہ سن کر میرا سر خود بخود اس کے سامنے جھکتا چلاگیا….اس کے ایثار نے مجھے مسخر کر لیا تھا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close