اسلام آباد – اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کے بعد حتمی معرکے کے لیے دنوں کی گنتی شروع ہو چکی ہے اور حکومتی اتحادیوں نے بھی اپنا سیاسی وزن حکومت اور اپوزیشن کے پلڑوں میں رکھنا شروع کر دیا ہے
مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے حکومت اور اپوزیشن کی حمایت کے فیصلوں کے بعد اب سیاسی دنگل کا تمام تر دارومدار کراچی سے حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پر ہے، جس نے منگل کی صبح تک اپنے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا
موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کے پاس 168 ممبران ہیں اور اگر اپوزیشن کو ایم کیو ایم کی حمایت حاصل ہو گئی تو تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 175 ارکان کے ووٹ پڑنے کا امکان ہے اور یوں اپوزیشن اتحاد کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ووٹوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اور ایوان میں وزیراعظم اپنی اکثریت کھو دیں گے
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایک درجن سے زائد منحرف ارکان کی حمایت موجود ہے اور کئی ارکان کھل کر بھی اپوزیشن کی حمایت میں سامنے آ چکے ہیں مگر سپریم کورٹ میں منحرف ارکان کی عارضی یا تاحیات نااہلی کی وضاحت کے لیے حکومتی ریفرنس زیر سماعت ہے جس کے باعث کئی منحرف ارکان خوفزدہ ہیں کہ ان کے ووٹ کے باعث کہیں ان کا سیاسی کیریئر ہی ختم نہ ہو جائے
اسی وجہ سے ایم کیو ایم جیسی اتحادی کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت سر توڑ کوشش میں ہیں کہ ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کر کے اپنی برتری کو حتمی کر لیا جائے
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تقریبا روزانہ کی بنیاد پر حکومت اور اپوزیشن کے وفود ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں
پیر کو بھی سینیئر حکومتی وزرا کی ایک ٹیم نے ایم کیو ایم سے ملاقات کی اور دعویٰ کیا کہ بات چیت حتمی مراحل میں داخل ہو گئی ہے
حکومتی وفد نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اسلام آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے ملاقات کی
ملاقات میں شامل ایک حکومتی رہنما کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کو جہاں شہری سندھ کے مسائل کے حوالے سے کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں وہیں ایک مزید وزارت دینے کی پیش کش کی گئی ہے
ان کا کہنا تھا کہ ’امید ہے کہ ایم کیو ایم ایک دو روز میں فیصلہ کرے گی اور اپوزیشن کو نیا سرپرائز ملے گا۔‘
ایم کیو ایم کیا سوچ رہی ہے؟
ایم کیو ایم کے رہنما سینیٹر فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے تاحال وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت یا مخالفت کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پیر کو حکومتی اور اپوزیشن ٹیموں سے ملاقات ہوئی تھیں اور چوہدری پرویز الٰہی صاحب کی ٹیم بھی آئی تھی، حکومتی سینیئر وزرا کی ٹیم آئی تھی۔‘
پاکستان مسلم لیگ (ق) کی جانب سے حکومت کی حمایت کرنے کے اعلان کے حوالے سے سینیٹر فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ’ہماری یہ انڈرسٹینڈنگ ضرور تھی کہ اتحادی جماعتیں اس معاملے پر ایک دوسرے سے چیزیں شیئر کریں گے لیکن فیصلے اپنے ہی لیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بعپ بلوچستان کی جماعت ہے، ایم کیو ایم پاکستان سندھ کی جماعت ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ق) پنجاب کی اور تمام صوبوں کے مسائل الگ ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت کی جانب سے انہیں سندھ کی گورنرشپ کی پیش کش کی گئی ہے تو انہوں نے کہا ’یہ ہماری ترجیح ہی نہیں اور ہمارے مطالبات مختلف ہیں، ہمیں شہری سندھ کے لیے حقوق چاہیں، ہم انتظامی اور قانونی اختیارات کی بات کرتے ہیں۔‘
ایم کیو ایم کے ایک اور رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پاکستان مسلم لیگ (ق) کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دی گئی ہے اور ایم کیو ایم کو بھی مزید واراتیں دینے پر حکومت راضی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے ماضی میں بھی ایم کیو ایم پاکستان سے وعدے کیے تھے اور 1100 ارب کے ترقیاتی پیکج کا اعلان بھی کیا تھا لیکن وہ پیکج آج تک صرف کتابوں میں ہی ہے۔‘
اپوزیشن کے مذاکرات کے حوالے سے ایم کیو ایم کے رکن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ہمیں یقین دہائی کرائی ہے کہ پیپلز پارٹی ہمارے شہری سندھ کے حوالے سے مطالبات پورے کرے گی لیکن انہیں جوائن کرنے کے حوالے سے ہم نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم ایک عرصے سے عزیزآباد میں اپنا دفتر مانگ رہے ہیں اور اپنے لوگوں کی بازیابی کی بات کررہے ہیں۔ اگر اپوزیشن ہمیں یقین دہانی کراتی ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد ہمارے مطالبات پورے کرے گی تو شاید کوئی بات بن سکے۔‘
اس حوالے سے جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سندھ سے تعلق رکھنے والے رہنما سے سوال کیا گیا تو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان کا کہنا تھا کہ ’زردای صاحب اور پیپلزپارٹی ایم کیو ایم پاکستان کو منا سکتے ہیں انہیں بس کوششیں تھوڑی تیز کرنا ہوں گی۔‘
ایم کیو ایم تحریک عدم اعتماد پر خود تقسیم ہوگئی
سیاسی حالات سے باخبر ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مسلسل رابطوں اور اجلاس کے بعد فیصلہ کرنے کے بجائے خود تقسیم ہو گئی ہے
مسلم لیگ ق کے فیصلے کے بعد ایم کیو ایم اپنے فوری فیصلے میں کنفیوژن کا شکار نظر آرہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے علاوہ بعض منتخب نمائندے اپوزیشن کا ساتھ دینے کے حق میں ہیں
ایم کیو ایم ممبران کی اکثریت اپوزیشن کا ساتھ دینے کی رائے دے رہی ہے، جبکہ ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کا جھکاؤ حکومت کی جانب ہے
تیزی سے بدلتی صورتحال میں ایم کیو ایم کی قیادت بھی تقسیم ہوگئی ہے، یہی وجہ ہے کہ فیصلہ کرنے میں مشکلات کے باعث اب تک جماعت کی جانب سے کوئی واضح اعلان سامنے نہیں آ سکا
ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر سید امین الحق نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم بدھ تک اپنے فیصلے کو سامنے لانے کی پوزیشن میں ہوگی، انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی وزارت یا عہدے کی نہ تو پیشکش ہوئی ہے اور نہ ہی ہم نے کسی سے کچھ مانگا ہے، حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں.